گڈ گورننس‘ جمہوری تسلسل یا پھر متبادل؟
محمد ریاض اختر
بہت کچھ ہوتا دیکھ رہا ہوں یہ تھا اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا بیان۔ عمران خان دو قدم آگے بڑھے فرماتے ہیں ن لیگ کے خودکش حملوں سے لگتا ہے کہ حکومت زیادہ دیر تک نہیں چلے گی؟ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کا فرمان تھا کہ ہم مخالفین کو پارٹی منشور سے شکست دیں گے کارکن الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہو جائیں۔ ادھر ولی خان صاحب کے صاحب زادے گرجے عمران خان کے سیاسی ظہورسے سیاست میں شائستگی ختم ہوگئی۔
کس کا یقین کیجئے کس کا نہ کیجئے
آئی ہیں بزم ناز سے خبریں الگ الگ
کیا ہوتا رہا؟ کیا ہورہا ہے ؟ اور کیا ہونے جارہا ہے ؟ سوالات پھر جنم لے رہے ہیں خدشات سر اٹھانے لگے اور وسوسے ایک مرتبہ پھر راستوں کی رکاوٹ بن کر مشکلات ومسائل کے تحائف دینے لگے۔ عوامی، کاروباری اور معاشرتی زندگی کے معمولات وہی ہیں مگر اشارے نئے انداز سے سامنے آرہے ہیں یہ ہے میرے دیس کا قومی منظر۔ایسے میں 14 اکتوبر کو فوج کے ترجمان نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ جمہوریت کو فوج سے خطرہ ہے نہ آئین سے کوئی بالا ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کے بیان پر بطور فوجی اور شہری مایوسی ہوئی۔ ٹینکو کریٹ حکومت نہیں آرہی۔ میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے بحیثیت فوجی اور بحیثیت شہری کی اصطلاح غالباً پہلی مرتبہ سامنے آئی ہے اس سے قبل ان کا جملہ خاموشی کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے سیاسی حلقوں میں دیر تک زیر بحث رہا ۔اپوزیشن جماعتیں اور لیڈرز جن باتوں کو اداروں میں تصادم سے تعبیر کررہے ہیں اس کے پس منظر میں وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال کے وہ تبصرے جو دورہ امریکہ میں ادا ہوئے۔ ایک تقریب میں سوال اٹھا کہ آپ معیشت کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں جبکہ آرمی چیف نے کراچی کے تاجروں سے خطاب میں کچھ اور کہا ؟پاکستانی عوام کس کی بات کو اہمیت دے۔ وزیر داخلہ نے سوال غور سے سنا اور پھر جواب دے کر شرکاء کو مطمئن کر دیا تاہم ان کی وضاحت اور تفصیل پر نئی خبر عود آئی چودہ اکتوبر کو ہی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایک روزہ دورہ کراچی میں فرما رہے تھے کہ پاکستان میں آمریت کے ہر دور میں ترقی کا عمل تعطل کا شکار رہا، حکمرانی کس نے کرنی ہے اس کافیصلہ عوام کو کرنے دیا جائے۔ جمہوریت کے سوا کوئی نظام کا ر آمد نہیں۔ کول کلنڈ اور کراچی سیمنٹ ٹرمینل کی تقاریب سے خطاب میں انکاکہنا تھا کہ جمہوریت میں خامیاں ضرور ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے پارلیمنٹ موجود ہے حکومت مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی تو اسے گھر چلے جانا چاہیے۔ مسلم لیگ ن حکومت کو مختلف چیلنج درپیش ہیں ہم چیلنج کا سامنا کررہے ہیں توانائی بحران سمیت بہت سے ایشوز ہیں ہم نے الزام تراشی کی بجائے مسئلے کے حل کی طرف توجہ دی۔آج بڑی حد تک عوام کو ریلیف مل جاچکا ہے لوڈشیڈنگ مکمل طورپر ختم کر رہے ہیں۔ ہم ماحول کو تلخ نہیں ہونے دیں گے۔ یہ درست ہے کہ نظام بدلنے اور گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہر دور میں رہی، سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پارٹیوں کے منشور بذات خود اپنے اندر عوامی خدمت اور تعمیر وطن کا جامع نظام لئے ہوئے ہیں جن پر عمل درآمد کر کے عوام کے دلوں پر راج کیا جا سکتا ہے۔پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت بڑی جماعتوں کے انتخابی منشور کو مطالعہ کی میز پر لایا جائے تو حیران کن حد تک پارٹیوں کے مابین عوامی خدمت کے مشترکہ نکات سامنے آجائیں گے۔تعلیم، صحت، روزگار، فراہمی انصاف، زرعی ترقی، صنعتی خوشحالی، آزاد خارجہ پالیسی، پڑوسی ممالک سے دوستی اور اس طرح کے بے شمار نکات سب پارٹیوں کے پاس یکساں نوعیت کے ہیں۔یہ سوال پارٹی منشور کا نہیں سوال حق حکمرانی اور پھر پارٹی منشور پر عمل درآمد کرنے سے سے متعلق ہے۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم،جمعیت علما ء اسلام ف اور جماعت اسلامی کسی نہ کسی طرح اقتدار کا حصہ رہیں۔ آیا ان جماعتوں نے اپنے اپنے پارٹی منشور کے تحت کس حد تک عوامی خدمت کے چراغ روشن کئے۔گویا کوتاہیاں، خامیاں اور کمزوریاں پارٹی منشور پر نہ عمل کرنے سے ہیں جبکہ الزام جمہوریت پر لگا دیا جاتا ہے کہ ڈیمو کریٹک سسٹم عوام کو کچھ ڈیلیور نہ کر سکا لہذا نظام بدلنے میں ہی عافیت ہے شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما چوہدری جعفر اقبال کی طرف سے پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانے کی تجویز سامنے آئی ہے۔وہ کہتے ہیں بر طانیہ کے پالیمانی نظام پر بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح خدشات کا اظہار کر چکے ہیں۔ وہ دعویدار ہیں کہ ان کے پاس حضرت قائد اعظم سے منسوب ایسی دستاویزات بھی ہیں جن سے قائد اعظم نے برطانیہ میں رائج پارلیمانی نظام کی خامیوں کی نشاندہی کی۔ چوہدری جعفر اقبال کہتے ہیں صدارتی نظام کی تجویز وہ ایک ایسی اعلیٰ سطح کی میٹنگ میں بھی کر چکے ہیں جہاں میاں نواز شریف اور شہباز شریف بھی موجود تھے۔معروضی حالات کے تناظر میں اپنی تجویز کے خدوخال بھی بیان کئے گئے تھے۔چوہدری جعفر اقبال کی تجویز اور خواب کس حد تک قابل عمل ہے اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اصل مقصد پاکستان کی ترقی اور عوامی خدمت ہے۔ ان دو بڑے اور میگا ٹارگٹ کے حصول کیلئے اگر کوئی تجربہ کر لیا جائے تو اس میں حرج کیا ہے قومی سیاست میں تجاویز اور مطالبے جمہوریت کا حسن سمجھے جاتے ہیں لیکن ان تجاویز اور مطالبات کی آڑ میں اگر ماحول تلخ کردیا جائے تو یہ بات کسی صورت بہتر نہیں رہتی۔آج کل فاٹا اصلاحات اور اس سے قومی دھارے میں لانے کی باز گشت ہے۔نئے الیکشن (نیا مینڈیٹ) کا مطالبہ بھی سامنے آ چکا ہے مسلم لیگ ن کی طرف سے گرینڈ ڈائیلاگ پر پیش رفت ہو رہی ہے’’ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔‘‘