جیل کہانی
تبصرہ جی آر اعوان
جیل کہانی
”میں سچ کی تلاش میں جیل جیل گھوم کر سچ بیانی میں مبتلا ہوگیا‘ میں نے سینکڑوں سچی کہانیاں تحریر کیں‘ یہ تحریریں حقیقت میں جرائم کی دنیا کا گیٹ وے ہیں۔ ان میں وہ سب کچھ ہے جو معاشرے میں ہو رہا ہے۔ جیل کی زندگی بھی باہر کی زندگی کی طرح ہوتی ہے۔ آغاز میں قیدیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ پھر یہ شب وروز کا معمول بن جاتا ہے۔“
یہ سطریں جاوید راہی کی کتاب جیل کی کہانی سے لی گئی ہیں۔ کتاب کے ناشر قلم فاﺅنڈیشن انٹرنیشنل ہیں، اہتمام علامہ عبدالستار عاصم اور محمد فاروق چوہان نے کیا۔ مصنف نے کتاب کا انتساب جناب ضیاشاہد‘ جناب ایم اے راحت‘ علامہ عبدالستار عاصم‘ جناب جبار مرزا اور جناب چودھری فیاض ظفر کے نام کیا ہے۔
کتاب پر محمد فاروق چوہان لکھتے ہیں مصنف باکمال شاعر ہیں جو روحانیت کے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں، علامہ عبدالستار عاصم کا خیال ہے۔ مصنف کی تحریریں پاکستانی معاشرے کی ترجمان ہوتی ہیں جو دور‘ ویژن اور سبق سے بھرپور ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کہتے ہیں کتاب میں نیا کرب‘ انوکھا المیہ اور دلدوز حقائق کو پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر اجمل نیازی رقمطراز ہیں۔ مصنف نے جیل کی کہانیاں منفرد انداز میں لکھی ہیں جو بے مثال ہیں۔ جبارمرزا کا استدلال یہ ہے انسان دوستی کی بڑی مثال‘ مصنف کا انسانی مسائل پر قلم اٹھانا ہے۔ خاص طور پر جرائم میں الجھے انسانوں پر لکھنا بہت اہم ہے۔
خواب سونے نہیں دیتے
”خواب سونے نہیں دیتے“ شاہدہ لطیف کی غزلوں کا مجموعہ ہے‘ جس کے ہر شعر میں ایک پرلطف احساس ہے‘ ہر مصرعہ روح کے تاروں کو چھیڑنے والا گیت ہے۔ لفظیات‘ نئے خیالات اور نئے طریقہ اظہار نے اس شعری گلدستے کو گل نوبہار کا مجموعہ بنا دیا ہے جس کی خوشبو کی لہریں مشام جاں کو معطر کر رہی ہیں۔“
شاہدہ لطیف کے اس شعری مجموعہ کے ناشر ماورا پبلشرز لاہور ہیں۔ طابع شرکت پرنٹنگ پریس ہیں۔ اس کی قیمت 500روپے ہے۔ کتاب ماورا بکس‘ 60۔وی مال لاہور سے دستیاب ہے۔ صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی کی حامل شاہدہ لطیف کی دیگر تصانیف وتالیف میں معجزہ‘ میں پاکستانی ہوں‘ معرکہ کشمیر، برف کی شہزادی‘ محبت نہ ہو جائے‘ اف یہ برطانیہ‘ بیت اللہ پہ دستک‘ نگاہ مصطفی‘ حکایات کا انسائیکلو پیڈیا‘ پاکستان میں فوج کا کردار‘ امریکہ‘ اسلام اور عالمی امن اور سات قدیم عشق شامل ہیں۔
اس کتاب پر اپنے اظہارخیال میں خالد شریف رقم طراز ہیں۔ غزلوں پر مشتمل اس کتاب کے ہر صفحے پر شاعرہ کی قادر الکلامی اور ریاضت کی مہر ثبت ہے۔ ہر صفحے پر مجاز سے حقیقت داستاں رقم نظر آتی ہے، مصنفہ خالق بشریت سے شکستگی میں حوصلہ مانگتی ہے، کسی پر انحصار نہیں کرتی۔ شاعرہ نے خیال اور الفاظ کی جدت کو غزل میں سمو دیا ہے جو قابل تعریف ہے۔ شاعری اور شخصیت کو ان کی شاعرہ کہا جائے تو بجا ہوگا۔ ان کا لفظ منفی اور مثبت دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ صورت احوال کی عکاسی کے لئے غزل بہترین میڈیم ہے۔ ولی رکنی سے میر تک اور غالب سے عصرحاضر تک جس صنف سخن نے بلاشرکت غیرے دلوں پر راج کیا ہے وہ غزل ہے۔ کتاب میں شاہدہ لطیف نے اسی طرز فکر کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔
امی جان
”بی بی جی بہت سخت تھیں یا شاید حالات نے انہیں ایسا بنا دیا تھا۔ دنیا کی ہر غلطی وہ معاف کرسکتی تھیں مگر کسی بچے کا امتحان میں کم نمبر لینا انہیں گوارہ نہیں تھا، ان کا سیدھا سادہ فارمولا تھا ”فرسٹ آﺅ یا پھر سیکنڈ‘ زیادہ سے زیادہ وہ تیسری پوزیشن کو مارکٹائی کے بغیر برداشت کرلیتی تھیں۔“
یہ سطریں پاکستان کے کامیاب صحافی‘ مدیراعلیٰ روزنامہ خبریں ضیاشاہد کی تصنیف ”امی جان“ سے لی گئی ہیں۔ کتاب کے ناشر قلم فاﺅنڈیشن انٹرنیشنل ہیں‘ قیمت 500 روپے ہے۔ کتاب قلم فاﺅنڈیشن انٹرنیشنل‘ یثرب کالونی‘ بنک سٹاپ‘ والٹن روڈ‘ لاہور کینٹ سے دستیاب ہے۔ کتاب کی طباعت کا اہتمام علامہ عبدالستار عاصم‘ محمدفاروق چوہان نے کیا ہے۔ ضیاشاہد نے کتاب کا انتساب اپنی پیاری امی جان کے نام کیا ہے۔
کتاب کا پہلا ایڈیشن ایک ماہ میں ہی ختم ہوگیا۔ یہ دوسرا ایڈیشن حک واضافے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جس میں مصنف نے اپنے بھائی بقامحمد پراسپیکج‘ مزمل بھائی پر کالم‘ اپنی امی جان کے چہیتے پوتے اور اپنے بیٹے عدنان شاہد پر مضمون ”ہنستا کھیلتا“ جبکہ امتنان شاہد پر پرانا کالم مونتو اور مونتو شامل کیاگیا ہے۔
راقم برسوں کاروان صحافت میں مصنف کے ہم رکاب رہا، ان کی زیر ادارت دوران ملازمت میںبہت کچھ سیکھا، ماں ماں ہوتی ہے، اس کی محبت شیرینی اور اسکی تربیت کی سختی اور تلخی ہر اولاد کیلئے یکساں کیف کی حامل ہوتی ہے۔ ضیاشاہد نے ”امی جی“ کو اپنے مشاق قلم سے تحریر کے ایسے پیکر ڈھالا کہ ہر پڑھنے والے کو یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنی امی جی کی داستان حیات پڑھ رہا ہے۔ حالات وکوائف اگرچے مختلف ہوتے لیکن تمام امی جی ایک جیسی ہوتی ہیں جو لوگ اپنی امی جی جیسی نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں ان کے لئے اس کتاب میں انکی اپنی امی جی کی یادوں جیسی یادیں‘ باتیں اور تصوراتی تصاویر جابجا موجود ہیں۔جو نگاہیں پر نم کر دیتی ہیں۔