’’کمال ضبط کو میں بھی تو آزمائوں گی
عنبرین فاطمہ
سہیلیاں بلاشبہ دُکھ سُکھ کی ساتھی ہوتی ہیں کہیں بھی چلی جائیں لیکن اپنی سکھیوں کیساتھ تعلق کو کبھی بھی فراموش نہیں کر پاتیں ۔سہیلیوں سے دوستی یا محبت کی کئی داستانیں مشہور ہیں ان پر فلمیں بھی بنتی رہی ہیں ان سب کے باوجود ،لاکھ دوستی یا بہناپاہی کیوں نہ ہوکوئی بھی عورت اپنے شوہر کی بانٹ پسند نہیں کرتی اور نہ ہی ایسا تصور کر سکتی ہے ۔عورت تو اپنے شوہر کا پیار پانے کے لئے آخری حد تک جا سکتی ہے انتہائی قدم بھی اٹھا سکتی ہے لیکن اس تمام تاثر کو علینہ فراز نے یکسر غلط ثابت کر دیا ہے۔اس نے اپنی سہیلی علشبہ کی شادی اپنے شوہر سے کروا ئی جو کہ غیر معمولی اقدام ہے اس نے ایسا قدم اپنی سہیلی کی محبت اور ہمیشہ کی رفاقت حاصل کرنے کے لئے اٹھایا ہے ۔بلاشبہ ایک بیاہتہ خاتون نے اپنی سہیلی کی محبت ہمہ وقت رفاقت حاصل کرنے کیلئے اسکی شادی اپنے شوہر سے کروا کر ایک منفرد مثال پیش کی ہے ۔شاید اسی موقع کے لئے پروین شاکر نے کہا تھا
’’کمال ضبط کو میں بھی تو آزمائوں گی
میں اپنے ہاتھ سے اسکی دلہن سجائوں گی‘‘
کوئی خاتون اپنے شوہر کی تقسیم گوارہ نہیں کر سکتی لیکن علینہ نے ایسا قدم کیوں اٹھایا ہم نے علینہ اور ان کی سوتن علشبہ سمیت شوہرمحمد فراز کو انٹرویو کیا اس میں ہونے والی باتیں کچھ یوں ہیں ۔
علینا اور علشبہ دونوں خاصی خوش دکھائی دیتی ہیں وہ اپنے اس اقدام کو لیکر نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ کہتی ہیں کہ دنیا جو کہتی ہے کہتی رہے ہم نے اپنی خوشی کو دیکھنا ہے اور ہماری خوشی اسی میں ہے کہ ہم تینوں ایک ساتھ رہیں ۔علینہ فراز نے ہمارے ساتھ گفتگو کا آغاز کچھ یوں کیا انہوں نے بتایا کہ میری شادی محمد فراز سے 30نومبر 2017میں ہوئی تھی میں علی پور کی رہنے والی ہوں اپنے ماموںسے ملنے کے لئے ملتا ن گئی وہاں انہوں نے میری شادی کی بات محمد فراز کے گھر والوں سے کی میرے گھر والوں نے چھان بین کے بعد رشتہ طے کر دیا اب شادی کی تیاریاں دھوم دھام سے ہونے لگیں یوں دو ماہ قبل ہم شادی کے بندھن میں بندھ گئے میں چونکہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوںلہذا میرے والدین اور بہن بھائی بہت خوش تھے کہ میری شادی اچھی جگہ ہو گئی ہے ،چونکہ میرے ماموں کی بیٹی علشبہ سے میری دوستی بچپن سے ہی خاصی زیادہ تھی ہم دونوں ایک ساتھ کھاتی پیتی اٹھتی بیٹھتی تھیں ہر وقت ایک دوسرے سے باتیں کرتی رہتی تھیں جب میری شادی ہوئی تو میں نے علشبہ کی کمی کو بہت محسوس کیا وہ بھی میرے بغیر خاصی اداس تھی ۔دراصل اس کی والدہ نے اپنے شوہر یعنی علشبہ کے والد سے طلاق لیکر دوسری شادی کر لی اسی طرح علشبہ کے والد نے بھی دوسری شادی کر لی اور گھر میں دوسری بیوی لے آیا ۔علشبہ کی سوتیلی ماں اس کے ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا کرتی تھی ہر وقت اس کو مارتی پیٹتی اور بات یہیں تک نہیں رکتی تھی بلکہ اپنے شوہر کو بھی کہتی کہ یہ میرا کہنا نہیں مانتی کوئی کام نہیں کرتی ہے یوں میرے ماموں بھی علشبہ کو مارنا پیٹنا شروع کر دیتے تھے ۔ہر وقت علشبہ روتی اور پریشان رہتی تھی جب سے اس کی والدہ نے دوسری شادی کر لی تھی، علشبہ میرے ساتھ ہی زیادہ وقت گزارتی تھی اور کہا کرتی تھی کہ میرا دل نہیں کرتا کہ میں اپنے والد اور سوتیلی ماں کیساتھ رہوں کیونکہ دونوں مجھے مارنے اور گالیاں دینے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں ،میں اپنی زندگی سے تنگ آچکی ہوں ۔جب میر ی بھی شادی ہو گئی توعلشبہ بالکل اکیلی پڑ گئی،بس سوتیلی ماں کے ظلم سہہ رہی تھی شادی سے پہلے میںاس کے دکھ درد بانٹ لیا کرتی تھی لیکن اب بھری دنیا میں کوئی ایسا نہیں تھا جو علشبہ کو حوصلہ دیتا ۔ایک دن جب علشبہ کا دل بہت بھرا ہوا تھا وہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میں اس گھر میں واپس نہیں جانا چاہتی کیونکہ میری ماں اور میرا باپ مجھے جینے نہیں دیتے ۔میں یہ سن کر خاصی پریشان ہوئی اور ویسے بھی میں علشبہ کے گھر کے سارے حالات سے واقف تھی مجھے لگا کہ علشبہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے یہ بہت ہی مشکل میں ہے ۔پھر جب مجھے علشبہ نے یہ کہا کہ میں اب گھر واپس نہیں جائوں گی اور تمہارے ہی گھر میں رہوں گی تو میں نے بھی کہا کہ ہاں ٹھیک ہے تم میرے پاس ہی رہ لو ۔علشبہ کے گھر والوں نے کوشش کی کہ وہ علشبہ کو میرے گھر سے لیجائیں لیکن علشبہ نہ گئی یوں میرے ماموں نے ہم پر علشبہ کے اغواء کا پرچہ کٹوا دیا اب ہمارے لئے یہ پریشانی کی بات تھی ایک پرچہ کٹواتے ہم اس کو خارج کرواتے تو ہم پہ دوسرا پرچہ ہو جاتا ۔اس ساری صورتحال پر میں نے بہت سوچ بچار کیا اور ایک دن علشبہ سے کہا کہ اگر تم میرے شوہر سے شادی کر لو تو پھر تمہارے والدین اغواء کا پرچہ نہیں کٹوا سکیںگے کیونکہ تم جب میرے شوہر کی بیوی ہو گی تو پھر پرچہ کٹنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوا گا ۔میں نے اپنے شوہر سے جب یہ بات کی تو ان کا ری ایکشن خاصا سخت تھا ان کا کہنا تھا کہ تم کیا کہہ رہی ہو تم کو اندازہ ہے؟میں نے کہا کہ میں نے سوچ سمجھ کرفیصلہ کیا ہے ۔پھر میں نے اپنے سسرال میں بات کی انہوں نے بھی میرا ساتھ دیا اور کہا کہ زندگی تو تم لوگوں نے گزارنی ہے لہذا تم اور فراز مل کر فیصلہ کرو اور خصوصی طور پر تم دیکھو کہ تم ایک سوتن کے ساتھ رہ سکتی ہو۔میرے شوہر شروع میں تو مان نہیں رہے تھے لیکن میں نے ان کو جیسے تیسے کر کے منا لیا ۔یوں 30نومبر2017کو میںنے علشبہ کے ساتھ فراز کی شادی کورٹ میں جا کر کروا دی ،میں نے اپنی شادی کا جوڑا علشبہ کو پہنایا اور اپنے ہاتھ سے اس کو دلہن بنایا جس دن میرے شوہر کی شادی ہوئی اس روز میں بہت زیادہ خوش تھی ۔لیکن میرے گھر والوں اور رشتہ دارں کا ری ایکشن بہت ہی سخت تھا میرے والدین کو جب یہ پتہ چلا کہ میں علشبہ سے اپنے شوہر کی شادی کروانے جا رہی ہوں تو انہوں نے مجھے بہت منع کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ایک وقت آئے گا جب تم کو اپنے اس فیصلے کو لیکر پچھتانا پڑے گا ۔ تم خود اپنے اوپر سوتن لیکر آرہی ہو تم نہیں جانتی کہ سوتن کا دکھ کتنا بڑا ہوتا ہے میںنے کسی کی ایک نہ سنی اور سوچا کہ میرے گھر والوں نے مجھے پالا ہے مجھ سے اتنی محبت کرتے ہیں میری والدہ جس نے مجھے پیدا کیا ہے وہ مجھے بالکل نہیں چھوڑ سکتی یہ وقتی غصہ ہے جو کہ کچھ دن میں کم ہو جائے گا لیکن یہ میری صرف خام خیالی نکلی کیونکہ میرے والدین نے مجھ سے بات کرنا ہی چھوڑ دی بلکہ یہ کہہ دیا کہ آج کے بعد تم ہمارے لئے مر چکی ہو۔لیکن مجھے یقین ہے کہ میرے والدین ایک نہ ایک دن مان جائیں گے ۔علشبہ فراز سے جب ہم نے بات کی تو انکا کہنا تھا کہ میں میں اپنی سوتیلی والدہ کے ظلم و ستم سے تنگ آچکی تھی اور ویسے بھی مجھے علینا کی بھی بہت یاد آتی تھی ایک روز جب میں علینہ کے گھر گئی اور اس کو سب بتایا تو اس نے کہا کہ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ تم میرے شوہر سے شادی کر لو تو میں یہ سن کر تھوڑی ہچکچائی لیکن مجھے لگا کہ یہ ایک بہتر مشورہ ہے یوں میں نے علینا سے کہا کہ تم اپنے شوہر کو منا لو میں تیار ہوں۔ہم تینوں ایک خوشگوار زندگی بسر کر رہے ہیں ہم دونوں مل کر کام کرتی ہیں اگر کبھی مجھے کوئی کام سمجھ میں نہ آئے توعلینا سے ڈانٹ ضرور پڑتی ہے لیکن تھوڑی دیر کے بعد ہم دونوں پہلے کی طرح بن جاتی ہیں ۔ہمارے سسرال والے ہم سے بے حد خوش ہیں ،ہمارا شوہر ہم دونوں کو شاپنگ ایک ساتھ کرواتا ہے اگر نہ بھی ایسا ہو تو ایک دن میرے ساتھ شاپنگ کرنے جاتا ہے اور دوسرے دن علینا کے ساتھ ۔دنیا کو جو کہنا ہے کہ کہتی رہے ہم تینوں ایک مطمئن زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہمیں کسی بات کر لیکر کوئی شرمندگی نہیں ہے ۔علشبہ اور علینا کے شوہر محمد فراز سے جب ہم نے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ میں گاڑیوں کی سروس کا کام کرتا ہوں جب مجھے میری بیوی نے دوسری شادی کے لئے کہا تو میں بہت حیران ہوا کہ میری بیوی مجھے کیا کہہ رہی ہے ۔میں نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسا کرنا مناسب نہیں ہے لیکن آخر کار مجھے میری بیوی کی ضد کے آگے ہارنا پڑا ۔میں نے شادی تو کر لی ہے لیکن علشبہ کے گھر والوں کی طرف سے مجھے جان سے مار دینے کی مسکسل دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں جس کو لیکر میں خاصا پریشان ہوں مجھے اور میری بیویوں کو تحفظ چاہیے ۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر سمیرا قمبر بخاری کا کہنا تھا کہ عموماً ایسا ہوتانہیں ہے جو اس کیس میں دیکھنے کو ملا ہے ۔سوسائٹی ان فیصلوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی ہے جس لڑکی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی سہیلی کی شادی اپنے شوہر سے کروائے گی ہمیں اس کی ذہنی حالت بھی دیکھنی ہو گی اور اس کی سوتن سے بھی سوال کیا جانا چاہیے کہ آخر ایسا کیوں کیا ہے ان دونوں نے جو وجہ بتائی ہے وہ وجہ غلط تو نہیں لیکن نامناسب ضرور ہے ۔