انستھیزیا ڈاکٹر یعنی بے ہوش کرنے والے ڈاکٹرز سرجری کے مریضوں کیلئے کس قدر اہمیت کے حامل
فرزانہ چودھری....فوٹوگرافی: گل نواز
انستھیزیا ڈاکٹر یعنی بے ہوش کرنے والے ڈاکٹرز سرجری کے مریضوں کیلئے کس قدر اہمیت کے حامل ہےں‘ شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ لوگ اس معاملے میں تو خاصے حساس دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی سرجری ماہر سرجن کرے مگر کبھی کسی مریض یا اس کے لواحقین کو یہ تحقیق کرتے نہیں دیکھا کہ مریض کو انستھیزیا دینے والا ڈاکر تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے کہ نہیں۔ بیرون ممالک میں پری آپریٹو کلینک (انستھیزیا سپیشلسٹ کلینک) ہیں جہاں لوگ سرجری کرانے سے پہلے اپنے بے ہوشی کے ڈاکٹر سے کلینک پر جا کر ملتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں ایسا کوئی رواج نہیں ہے۔ ےہ بات غور طلب ہے کہ غیر محفوظ انستھیزیامرےض کو موت کی نیند سلا سکتا ہے یا پھر اس کو زندگی بھر کیلئے اپاہج بنا سکتا ہے اس لئے سرجری میں سرجن سے پہلے انستھیزیا کے ڈاکٹر کی مہارت کے بارے میں علم ہونا ضروری ہے۔
٭ انستھےزیا ڈاکٹرکاکام صرف مریضوں کو بے ہوش کرنا ہی ہے؟
ج: نہیں۔ پورے ہسپتال میں مرےض کوکہیں بھی کسی کو مشکل پیش آتی ہے مثلاً اگر کسی مریض کی نس نہیں مل رہی اور اگرکسی مریض کاکارڈیک ریسٹ ہوجاتا ہے ےعنی مریض کے دل کی حرکت بند ہوجاتی ہے ہم نے مرےض کو پمپ کرکے دل کی دھڑکن کو resuscitate اور اس کا سانس بھی بحال کرنا ہوتا ہے اس کے لےے مرےض کے گلے میں ٹیوب ڈالتے ہیں۔ پھر مرےض کو وینٹی لیٹر مشےن لگاتے ےہ سب ہماری پریکٹس میں شامل ہے۔ وینٹی لیٹر اور آئی سی ےوکی مینجمنٹ بھی ماہر انستھےزیا کے ذمے ہوتی ہے۔ انتہائی نگہداشت کا شعبہ انستھےزیا سپےشلےٹی کا ہی ہے انستھیزیا ایک ماڈرن سپیشلیٹی ہے“۔
ڈاکٹر کامران نے بتاےا ” سوائے چند ٹرشی کیئر ہسپتالوں کے باقی تمام ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے ےونٹس میں وینٹی لیٹر، آلات، مشینری،مونیٹرنگ آپریٹس کا فقدان ہے ، مونیٹرز نہیں ہیں جن پر سرجری کے دوران مےں مریض کی سانس اور دل کی دھڑکن کی رفتار، بلڈ پرےشر اور باڈی ٹمپریچر کی رےڈنگ دیکھی جاتی ہے ۔ ان میں سب سے اہم وینٹی لیٹرز ہیں۔ جو مریض بہت بری حالت ےعنی دل کے عارضہ یا حادثے سے دماغ مےں چوٹ لگنے سے ہسپتال آتے ہیں ان کے لیے وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑتی ہے۔ پی آئی سی میں کارڈیک سرجری کے دو یونٹس کام کررہے ہیں۔ کارڈیک سرجری میں سرجری کے بعدمریض کو چار سے پانچ گھنٹے کے لیے وینٹی لیٹر پر رکھتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ مریض کو کوئی ٹیکہ لگا کر چلا جاتا ہے اور مریض بے ہوش ہوجاتا ہے۔ پھر مریض قدرت کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اس کو ہوش آگیا تو آگیا، نہیں آیا تو نہیں آےا۔جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ جس مرےض کی سرجری ہوتی ہے اس کو بے ہوش کرنے کے بعد سرجن تو اپنا کام کررہا ہوتا ہے ۔ لےکن سرجری کے دوران مریض کی بنیادی طور پر دیکھ بحال یا نگہداشت ماہر انستھےزےا ہی کررہا ہوتا ہے۔ مرےض کے لےے تو اوپر اللہ اور نیچے انستھیزیا کا ڈاکٹر ہوتا ہے۔ وہ اس کی سرجری کا دوران مرےض کی نبض کی رفتار، آکسیجن کی سیچوریشن ، ای سی جی، بلڈ پریشر ہر چیز کو مونیٹر کر رہا ہوتا ہے۔ کارڈےک سرجری کے دوران مریض سانس خود نہیں لے رہا ہوتا کیونکہ اس کو دوائی دے کر مفلوج کردیتے ہیں۔انستھیزیا ایک کنٹرول چیز ہے ہم جتنی دیر کے لیے چاہیں مریض کو بے ہوش کرسکتے ہیں اور پھر اس کو ہوش میں لاسکتے ہیں یہ سب دوائی کی مقدار پر انحصار کرتا ہے ۔کارڈیک سرجری میں پانچ چھ گھنٹے سرجن کی سرجری مےں لگ جاتے ہیں ۔مرےض کو بے ہوشی کا ٹیکہ لگانے کے بعد، دوران سرجری مصنوعی آکسیجن کے ساتھ بیہوشی کی گیس سانس کی نالی مےں ڈالی گئی ٹیوب کے ذریعے مریض کے جسم میں جارہی ہوتی ہے۔ سرجری کے دوران تمام وقت انستھیزیا سپیشلسٹ آپرےشن تھےٹر مےں موجود رہتا ہے سرجری کے بعد مریض کو ہوش میں لانے کے بعد انستھیزیا سپیشلسٹ کی ذمہ داری مکمل ہوتی ہے۔پی آئی سی ہسپتال میں وہ تمام سہولیات دستیاب ہیں جو کسی غےر ملکی سٹےٹ آف دی آرٹ سرجےکل ہسپتالوں مےں موجود ہوتی ہےں۔ دوائیوں، مشینوںاور مانیٹرنگ مشےنری کی وجہ سے بہتری آ گئی اور بڑی سرجریاں ہونے لگی ہےں۔انستھیزیا کا انحصار مریض کی صحت اور آپریشن کیلئے درکار وقت پر ہوتا ہے۔ اس کو ہم پری آپریٹو اسسمنٹ کہتے ہیں۔ سب سے اہم یہ دیکھتے ہیں کہ مریض کی صحت کےسی ہے‘ کس چیز کی سرجری ہونی ہے اور وہ بے ہوشی کی کتنی دوائی برداشت کر سکتا ہے۔ لوگوں کو شاید اندازہ ہی نہیں ہے کہ یہ کس قدر اہم ترین شعبہ ہے اب ےنگ ڈاکٹرز اس شعبے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ےنگ ڈاکٹروں کی ہڑتال کے بارے مےں ےہ بات ضرور کہوں گا کہ ڈاکٹروں کو ہڑتال نہےں کرنی چاہےے ہماری ذمہ داری اور ہمارا پےشہ اس کی اجازات نہےں دےتا۔ اگرڈاکٹری کمائی کا ذریعہ نہ ہوتی تو ےہ عبادت ہے“۔
٭ اگر انستھیزیا کی خوراک مریض کو زیادہ دے دی جائے تومرےض زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے؟
ج: تمام تر غیرمحفوظ طریقے اور چیزیں بھی زندگی کو ختم کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ اسی طرح سے درد کی دوائیں بھی ہیں۔ انکی زےادتی آپ کے سانس کو روک سکتی ہے۔ انستھیزیا دینے کے بعد مریض مقررہ وقت کے ساتھ بے ہوشی سے باہر آتا‘ لیکن اس کو بے ہوشی سے ریورس بھی کرنا پڑتا ہے اس کے الگ انجکشن ہوتے ہیں۔
٭ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ انستھیزیا دینے سے مریض مستقل کومے میں چلا جائے؟
ج: انستھیزیا کے ذریعے مریض کو ایک مقررہ وقت کیلئے کومے میںلے جاتے ہےں۔ اگر مریض مستقل کومے میں چلا جائے یعنی اس کا دماغ کام کرنا بند کر دے۔ وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے آپ نے جو بے ہوشی کی دوائی دی‘ اس نے دماغ کی بلڈ سپلائی بند کر دی ےا کچھ عرصہ کیلئے آکسیجن کی سپلائی بہتر نہ رہی یا مریض کے پٹھوں کو مفلوج کیا‘ لیکن اس کو Properly وینٹی لیٹ نہ کیا۔ سارے سسٹم کو مانٹر نہ کیا۔ اس صورت میں اس کا دماغ Damage ہو جائے تو وہ مریض کو مستقل کومے میں جا سکتا ہے۔مرےض کے دےر تک بے ہوش رہنا سرجری کے عمل سے بھی منسلک ہوسکتا ہے خاص کر کارڈےک سرجری مےں تو دو تےن فےصد مرےض اےسے ہوتے ہےں جو کارڈیو واسکو لر ایکسیڈنٹ سے متاثر ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کو فالج ہوسکتا ہے یا مریض کے دماغ کے اندر خون کا لوتھڑا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہوش میں نہ آئے ،گردے بھی فیل ہوسکتے ہیں۔ اس کے بارے میں مریض اور اس کے لواحقےن کو پہلے بتا دیا جاتا ہے اور اجازت نامہ فارم پر یہ سب لکھا ہوتا ہے کہ سرجری کے دوران ےہ ےہ پچےدگی پےدا ہوسکتی ہے۔ مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ ایساہو ۔لےکن مائنرچانس ضرور ہوتا ہے۔