نوجوان نسل میں برداشت کی طاقت!
آج کل ہر کوئی عدم برداشت کی کیفیت میں مبتلاہے۔آخر ایسا کونسا عمل کیا جائے کہ جس سے ایک معاشرہ عدم برداشت سے محفوظ رہ کر اپنا کاروان زندگی آگے بڑھا سکے اور بہترین معاشرہ تشکیل پا سکے۔اس تناظر میں بہت سے دانشور بہت سے اہل درد حضرات اورقوم کے ہمدرد صاحبان نے اپنی طرف سے بہت کچھ سیکھا جو کہ بلا شبہ قابل ستائش ہے اور کسی بھی معاشرے میں برداشت کا حوصلہ پیدا کرنے میں یقیناً معاون ہے۔ تاہم کسی بھی علم کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔کسی بھی سوچ یا فکر کا دائرہ کار محدود نہیں ہوتا بس اس میں اپنی اپنی جہت کو شامل کرنے کی ہمہ وقت گنجائش موجود رہتی ہے۔آج کل کی صورتحال کے مطابق عدم برداشت محض مقصد کی بجائے فائدے کو ترجیح دینے کے سبب ہی نظر آ رہا ہے۔ عدم برداشت کی بڑی وجہ شعور میں کمی ہے جو کہ آج کل نہ صرف نوجوانوں میں بلکہ تنگ نظر دائرہ کار جیسے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ تعلیم ہونے کے باوجود برداشت کا مادہ بالکل ختم ہونے کے برابر ہے۔ ان کی بڑی وجہ اپنا ’’فائدہ‘‘ اپنی ’’غرض‘‘ سے منسلک ہیں نہ کہ مقصد کی خاطر۔ ہم اپنے معلاملات کو اس طرح چاہتے ہیں کہ فائدہ ہماری نظر میں مقصد بن جاتا ہے اور اصل مقصد ہم نظروں سے اوجھل کر دیتے ہیں اور ہر نئی آنے والی نسل کے ذہن اس حد تک پختہ ہو جاتے ہیں کہ وہ فائدہ کو ہی اصل مقصد سمجھنے لگتے ہیں۔ لہٰذا اسلام کی تعلیمات کو مد نظر رکھتے ہوئے فائدے کو حدف بنانے کی بجائے مقصد کو ملحوظ خاطر رکھیں باقی سب معاملات میں خود ہی بہتری آ جائے گی۔
زوباریہ گل(لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی)