کراچی میں خواتین پر حملے‘ ملزم تاحال گمشدہ،رونقیں ختم
الطاف احمد خان مجاہد
کراچی ماضی میں عروس البلاد تھا لیکن گزشتہ تین عشروں سے اس جیتے جاگتے شہر پر خوف کی فضا مسلط ہے۔ 80 کی دہائی میں ہتھوڑا گروپ سے خوف وہراس پھیلا تھا۔ رواں عشرے میں ڈیفنس کے کرولا گروپ نے پوش علاقے کے مکینوں کی نیندیں اڑا دی تھیں سر راہ گزرنے والی خواتین کے اغوا یا پرس چھیننے کی لاتعداد وارداتیں ٹولے سے منسوب ہوئیں پھر کچھ لوگ پکڑے بھی گئے۔ لیکن اب سامنے آنے والا گروپ نہیں بلکہ ایک موٹرسائیکل سوار ہے جو ہیلمٹ پہنے اچانک آتا ہے اور عقب سے واردات کرکے فرار ہو جاتا ہے۔ کسی نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا البتہ ایک خاتون کا دعویٰ ہے کہ اس کے بال گھنگریالے تھے یہ ایک سے زائد افراد پر مشتمل گروپ، ٹولہ یا گروہ بھی ہو سکتا ہے جو ہیلمٹ، جینز اور موٹرسائیکل استعمال کر رہا ہو۔ بارہ روز میں پندرہ خواتین کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ ملزم اس دوران تین بار اپنا حلیہ اور کئی مرتبہ موٹر سائیکل کا کور تبدیل کرچکا ہے پولیس نے متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لیا کئی سمتوں میں پیشرفت کے دعوے کئے لیکن وہ چھلاوہ صفت نوجوان پکڑا نہ جاسکا۔گلستان جوہر کراچی کا ایسا علاقہ ہے جہاں بنگلوز بھی ہیں اور فلیٹ سائٹس بھی، متعدد علاقوں میں پورشن اور پینٹ ہاﺅس بھی تعمیر کئے گئے ہیں غرضیکہ ملحقہ کچی آبادیوں کی وجہ سے یہاں لوئر مڈل کلاس، متوسط طبقہ اور اشرافیہ سب ہی آباد ہیں ایسے میں خواتین پر حملوںکے پے در پے واقعات نے کراچی پولیس کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔ تیز دھار آلے سے کئے گئے حملوں میں 25ستمبر سے اب تک پندرہ خواتین نشانہ بنی ہیں ۔پہلی واردات گلستان جوہر کے علاقے کامران چورنگی پر ہوئی تھی جبکہ اس کے بعد کی کئی وارداتیں بھی اسے علاقے میں ہوئیں لیکن بعد میں ڈالمیا‘ گلشن جمال اور پیر الہیٰ بخش کالونی میں ملزم نے کئی عورتوں کو نشانہ بنایا بلکہ ایک واردات میں تو اس نے ہیلمٹ کا تکلف بھی نہیں کیا جس کے بعد ہی کراچی کے ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر کا یہ دعویٰ سامنے آیا کہ اس کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ ایک مشتبہ شخص کی گرفتاری کی اطلاع بھی دی گئی۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ملزم کی گرفتاری میں مدد دینے والے کیلئے5 لاکھ روپے انعام کا اعلان بھی کیا۔کچھ لوگ ملزم کو جنونی بتاتے ہیں جو اپنی مشاقی یا پھر پارہ صفت شخصیت کے باعث ہاتھ نہیں آ سکا ہے پولیس ان وارداتوں کی تصدیق کرتی ہے اور ہیلمٹ پہنے نامعلوم موٹرسائیکل سوار کے خلاف مقدمات بھی درج کر چکی ہے۔ ڈی آئی جی شرقی نے علاقے میں 4 ایس ایس پیز‘ 7 ڈی ایس پیز اور 12 تھانیداروں سمیت متعدد پولیس اہلکاروں کی اس مقصد کیلئے تعیناتی کی ہے تاکہ گلستان جوہر‘ گلشن اقبال‘ گلشن جمال‘ عزیز بھٹی اور پیر الٰہی بخش کالونی کی وارداتوں کا ملزم پکڑا جا سکے۔ آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ ان واقعات سے متعلق تفصیلی رپورٹ مانگ چکے ہیں نشانہ بننے والی خواتین میں 13سالہ عروسہ، شادی شدہ حنا رضا، گھریلو ملازمہ، حاجرہ، 16 سالہ زارا ردا اسرار‘ شاہدہ پرویز‘ لائبہ وحید‘ کرسٹینا‘ حنا عارف‘ حفصہ‘ جنید‘ سونیا‘ نورین‘ طاہرہ بانو‘ عریشہ شاہد کے نام سامنے آئے ہیں۔ دوسری طرف گلستان جوہر کی اے ٹی ایم سے رقم لیکر نکلنے والی خاتون 28 سالہ طاہرہ بانو نے ملزم کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن زخمی ہو گئیں۔ ابتداً پولیس حکام کا موقف تھا کہ حملوں میں زخمی خواتین نے تھانے سے رابطہ نہیں کیا لیکن بعد میں وارداتوں نے خواتین کو شکایت درج کرانے کا حوصلہ دیا۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پولیس نے متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے لیکن اصل ملزم تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ ہلاک 15گلستان جوہر کی زارا خان اپنی والدہ کے ہمراہ فیملی پارک سے واک کے بعد سڑک پر آئیں تو اسے ٹارگٹ کیا گیا ایسا ہی عروسہ کے ساتھ ہوا جب وہ اپنی والدہ شاہدہ پروین زوجہ ارشاد علی کے ساتھ سرشام جارہی تھی۔ گلستان جوہر اور شارع فیصل تھانوں کی پولیس کا کہنا ہے کہ تمام خواتین یا لڑکیوں کو عقب سے نشانہ بنایا گیا ہے اور اس سے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا ہے اور بادی النظر میں یہی مقصد حملہ آور کا دکھائی دیتا ہے۔ پہلے کہا گیا تھا کہ حملہ خنجر سے ہوا ہے پھر نشاندہی کی گئی کہ خنجر نہیں چھری ہے اور اب حکام کہتے ہیں کہ یہ چھری یا چاقو نہیں بلکہ کاغذ اور گتہ کاٹنے والا نائف کٹر ہے۔ ملزم نے اب تک طالبات یا ملازمت پیشہ خواتین کو ہی نشانہ بنایا ہے۔ کالی پینٹ شرٹ پہنے موٹرسائیکل سوار نے جو ایک سے زائد بھی ہوسکتے ہیں فٹ پاتھ پر جاتی خواتین کو ٹارگٹ کیا ہے کئی خواتین کے دائیں اور دیگر کے بائیں ہاتھ پر زخم آئے ہیں۔ وارداتوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سوئم شہدائے کربلا والے روز جب شہر بھر میں پولیس تعینات سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی، مجرم نے اپنا کام جاری رکھا۔ کہتے ہیں اس نوع کے حملے گذشتہ برس لاہور اور ساہیوال میں بھی ہوئے تھے ایس پی گلشن اقبال مرتضیٰ بھٹو کے مطابق خوف و ہراس پھیلانے والے جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ ایک نجی ہسپتال کے میڈیکل افسر کے حوالے سے شائع ہوا ہے کہ زخمی خواتین میں سے تین کے ہاتھ پر گہرے زخم آئے ہیں۔ ایک پولیس والے نے سات وارداتوں کی اطلاعات کی تصدیق کی اور گمان ظاہر کیا کہ کوئی ذہنی مریض ان وارداتوں میں ملوث ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کی مشیر سماجی بہبود محترمہ شمیم ممتاز نے کہا کہ بعض عناصر شہر میں خوف و ہراس پھیلانا چاہ رہے ہیں لیکن انہیں ناکامی ہو گی۔ خواتین اور شہری پولیس پر بھروسہ کریں اور ملزمان کی گرفتاری میں معاونت کریں۔شہری حلقے سوال کرتے ہیں کہ متعدد دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کے دعوے کرنے والی پولیس اس مرتبہ کیوں ناکام ہے اور یہ بھی کہ ان علاقوں میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے کیوں ملزمان کی نشاندہی نہیں کر رہے ہیں۔
کراچی کی گلیوں‘ بازاروں‘ ہوٹلوں حتیٰ کہ شادی بیاہ کی تقاریب میں بھی یہ چھلاوہ موضوع گفتگو ہے جو حکام کیلئے دردِ سر بن چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بھی خوف و ہراس ہے کہ طالبات کو پوائنٹ سے اتر کر گھروں تک پیدل جانا پڑتا ہے اور وہ ایسے حملوں سے خوفزدہ ہیں۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ کہیں یہ ٹاسک بلیو وہیل گیم سے تو نہیں ملا اور وہ ہدف کی تکمیل کیلئے خواتین کو نشانہ بنا رہا ہے۔ مسلسل حملوں اور پولیس کی ناکام کے بعد حساس اداروں کو معاملہ سونپے جانے کی اطلاع ہے بعض حلقے اسے کراچی آپریشن کیخلاف تو کچھ آئی جی حکومت مناقشے کے تناظر میں اے ڈی خواجہ کے خلاف سازش تصور کر رہے ہیں۔