حضرت پیر ابو المظفر مفتی غلام جان علوی قادری رضوی
محمد ذیشان یعقوب یوسفی
mzyy@gmail.com
علوم اسلامیہ کے خدمت گذاروں کا بہت بڑا مقام ہے انہیں زبان نبوت نے وارثانِ انبیاءکے اعلیٰ خطاب سے نوازاہے اور حضور ختمی مرتبت نے فرمایا میری امت کے علماء دین کی تبلیغ واشاعت میں انبیاءبنی اسرائیل کی طرح ہیں یہ علماءربانیین اسلام کے پاسبان و پہرے دارہیں۔انہوں نے نامساعد حالات میں علوم اسلامیہ کو حاصل کیااور پھر پوری ہمت و پامردی سے اسکی تبلیغ و تشہیر کے ساتھ اس کی حفاظت پربھی کمربستہ رہے۔پیر ابوالمظفر مفتی غلام جان قادری رضوی کا شمار بھی سرکردہ علماءمیں ہوتا ہے۔ آپ خیبر پختونخواہ( صوبہ سرحد) ہزارہ ڈویژن کے مردم خیز علاقہ مانسہرہ کے قصبہ اوگرہ میں علماءکے خاندان میں ایک ہاشمی قریشی گھرانے کے سربراہ قاضی احمد جی اعوان کے ہاںمتولد ہوئے۔ہوش سنبھالتے ہی قرآن پاک اور ابتدائی کتب پڑھنے کے بعد علم دین سیکھنے کا جذبہ موجزن ہوا تو جہاں کہیںبھی علم کا شہرہ سنتے شوق علم کشا کشاں وہاں پہنچادیتا۔ اسی جستجو میںہزارہ، پنجاب ،آگرہ، دھلی، میتھرہ،رام پور۔ سہارنپوراور ٹونک کے مدارس میںآپ نے مشہوراساتذہ سے علوم و فنون کا درس لیا۔
ہری پور ہزارہ کی مشہور روحانی شخصیت ولی کامل حضرت پیر عبدالرحمان چھوہروی کی خدمت بابرکت میں حاضری کا شرف پایاتو مدعا عرض کرنے کے ساتھ دعا کی درخواست کی۔ حضرت نے بڑی شفقت و محبت اور علم حاصل کرنے کی تاکید و دعا فرمائی۔پھر آپ گجرات میں حضرت مولانا غلام رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اعوان شریف ضلع گجرات میں سلطان اولیاءحضرت قاضی سلطان محمود صاحب کے ہاں حاضری دی۔ آپ نے اپنے خداداد علم سے فرمایا کہ سب سے بڑا پیر علم ہے، لہٰذا ہندوستان کی طرف سفر اختیار کرو۔ تکمیل کے بعد جہاں دل جمے مرید ہو جانا۔ چنانچہ اسی جستجو میں آپ کا سفر جاری رہا۔ آخرکار آپ اپنی منزل مراد تک جا پہنچے۔ امام المحدثین تاج الفقہا حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔وہاں تسکین روح کا سامان پایاتو دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف میں داخل ہوگئے۔ شمس العلماءحضرت ظہور الحسن فاروقی رامپوری اور صدر الشریعہ حضرت مولانا حکیم امجد علی مصنف بہار شریف سے درس نظامی کی آخری کتب پڑھ کر صحاح ستّہ کا دورہ کیا۔ علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد امام احمد رضا نے مفتی صاحب کی سچی تڑپ اور کامل عقیدت دیکھی تو سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت اور خلافت سے مشرف فرمایا۔ آپ نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس افتاءووعظ ونصیحت میں گذاردی۔ بریلی شریف ، مکھڈشریف اور تونسہ شریف میں تدریسی خدمات سر انجام دیں۔ ضلع ہزارہ کی مشہور ریاست شہیلیہ میں مسند افتا اورعہدہ قضاپر فائز رہے۔
لاہورتشریف لائے تو قدیمی درسگاہ انجمن نعمانیہ کے ارکان کی استدعا پر آپ دارالعلوم میں عرصہ درازتک تدریس و فتوےٰ نویسی کے منصب پر فائز رہے۔ ملک اور بیرون ملک اطراف و اکناف سے آنے والے استفتاﺅں کے مدلّل جوابات دیتے رہے۔ افغانستان میں عبدالطیف نامی قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کے باطل عقائد کی تبلیغ وتشہیرکیلئے جب وہاں پہنچا تو والی¿ افغانستان امیرامان اللہ خان غازی نے اسے سنگسار کیا۔ اس بارے میں شاہ افغانستان نے استفتا دارالعلوم انجمن نعمانیہ آپ کے پاس بھیجا جس کا جواب حضرت مفتی غلام جان قادری رضوی نے ٹھوس دلائل سے دیا اور شاہ افغانستان کے اس مبارک اقدام کو خوب خوب سراہا۔ جس کی نقل آج بھی آپ کے مجموعہ¿ فتاویٰ قادریہ غلامیہ میں محفوظ ہے۔ اب یہ فتاویٰ طباعت کے آخری مراحل میں ہے۔
حضرت مفتی صاحب علم و عمل کے بلند مقام پر فائز ہونے کے باوصف کبھی تکبر و غرور کو اپنے پاس پھٹکنے نہ دیا عجز و انکساری کامجسمہ تھے۔ کام کاج میں مدد کی پیشکش کرنے پراکثرفرمایا کرتے کہ کیا قیامت کے دن میرابوجھ اُٹھا لو گے۔اہل لاہور کو عرصہ دراز تک فیض یاب کرتے ہوئے آخرکار آپ 25 محرم الحرام 1379ھ یکم اگست 1959ءکو ظہر کے وقت قبلہ رُو درود پا ک وکلمہ شریف کا ذکر کرتے ہوئے جہان فانی سے وصال فرما گئے ۔اگلے روز یونیورسٹی گراو¿نڈ کے بڑے اجتماع میںمفتی¿ اعظم پاکستان سید ابوالبرکات سید احمد شاہ صاحب نے نماز جنازہ کی امامت کرائی۔ آپ کے جسد خاکی کو غازی علم دین شہید کے قریب احاطہ¿ قادریاں رضویاں میں سپرد خاک کیا گیا۔ہر سال آپ کا عرس مزار مبارک احاطہ¿ قادریاں رضویاں نزد مزار غازی علم دین شہید قبرستان میانی صاحب میں عزت و احترام سے منایا جاتا ہے ۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را