عقیدت خواتین بہ نذر محسن انسانیت
عیشة الرّاضیہ
زمانہ جاہلیت میں عورت کو وہ مقام حاصل نہ تھا جو آج کل حاصل ہے۔ ظہور اسلام سے پہلے عورت کو نہایت ادنیٰ حیثیت دی جاتی تھی۔ وہ اس قدر مجبور اور لاچار تھی کہ اپنی مرضی سے فیصلے کرنا تو درکنار وہ اپنی مرضی سے زندگی بھی نہیں گزار سکتی تھی۔ ظلم کی انتہا یہ تھی کہ بیٹی کی پیدائش پر باپ کا سر معاشرے میں جھک جاتا، لہٰذا وہ نومولود بچی کو زندہ درگور کر دیتا۔ عورت پر ظلم ہر حد سے تجاوز کر چکا تھا۔ اگر کسی عورت کا خاوند کسی وجہ سے انتقال کر جاتا تو معاشرہ اس کا ذمہ دار عورت کو ٹھہراتا۔ اس عورت کو منحوس قرار دے کر ہر قسم کے تعلقات توڑ لئے جاتے۔ زمانہ ءجاہلیت کے دور میں باپ یا شوہر کی وراثت میں عورت کا حصہ نہ ہوتا تھا۔ عورت کو بھیڑ بکریوں سے بھی کم مقام حاصل تھا۔
آنحضور محمد آقائے دو جہاں سارے عالم کے لئے سراپا رحمت تھے۔ حضرت محمد کی آمد سے زمانہ جاہلیت کی تاریکی چھَٹی۔ رسول پاک کی تعلیمات نے دلوں کو منور کیا۔ آپ نے عورت کو اس کا صحیح مقام دلوایا۔ عورت کے حقوق متعین کئے۔ اسے اپنی مرضی سے جینے کا حق دیا۔ بیوہ عورت کی دوسری شادی کروانے کی تلقین فرمائی۔ بیٹی کو رحمت قرار فرمایا اور بیٹی کو زندہ درگور کرنا حرام قرار دے دیا گیا۔ رسول پاک نے ارشاد فرمایا:
”جس شخص نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ دونوں بالغ و جوان ہو گئیں (اور اپنے گھروں کی ہو گئیں) تو قیامت کے روز وہ اس حال میں آئے گا کہ وہ اور میں ان دو انگلیوں کی طرح ساتھ ساتھ ہوں گے ۔“ (صحیح مسلم، حضرت انسؓ)یعنی لڑکی کی اچھی تربیت پر آپ نے اس قدر زور دیا کہ انکی پرورش کرنے پر روز آخرت میں قدر و منزلت کی نشانی عطا فرمائی۔ رسول خدا محمد کو اللہ رب العزت نے چار بیٹیوں سے نوازا۔ آپ نے اپنی چاروں بیٹیوں کی ایسی نہایت عمدہ پرورش کی کہ جو قیامت تک لوگوں کے لئے اعلیٰ نمونہ ہے۔ نبی پاک اپنی ہر بیٹی سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔ حضرت فاطمة الزھراؓ سب سے چھوٹی اور سب سے لاڈلی بیٹی تھیں۔ رسول اللہ نے چاروں بیٹیوں کی نہ صرف اعلیٰ پرورش، تعلیم و تربیت فرمائی بلکہ ان کی نہایت اچھے گھرانوں میں شادیاں کیں۔
یہ ہر دور کے مرد کے لئے عمدہ نمونہ ہے کہ کس طرح شفقت اور محبت کے ساتھ پرورش سے لیکر اس کی شادی تک معاملات عمدگی سے نبھائے جانے چاہئےں۔دور جاہلیت میں عورت کو تعلیم حاصل کرنا منع تھا۔ مگر رسول اللہ نے عورت کو علم حاصل کرنے کا حق دلایا۔ آنحضور نے ارشاد فرمایا:
”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے“بیوی کے حقوق کی بات کی جائے تو رسول پاک کا اسوہ ہمارے سامنے موجود ہے۔ آپ نے اپنے عمل سے مسلمان شوہروں کو بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی۔ اےک موقع پر خود رسول پاک نے نہایت صاف صاف لفظوں میں بتایا ہے کہ بیویوں کے ساتھ نیک سلوک ایمان کی دلیل ہے۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول نے فرمایا:
مومنوں میں سے سب سے زیادہ کامل ایمان والا شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا ہے اور جو اپنی گھر والی کے حق میں سب سے زیادہ نرم اور مہربان ہے“ (جامع ترمذی) حضرت عائشہؓ ہی کی ایک روایت ہے کہ رسول نے فرمایا: ”تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی گھر والی کے حق میں سب سے بہتر ہے اور میں تم سب میں زیادہ گھر والی کے حق میں بہتر ہوں“ (ابن ماجہ)
اگر وراثت کی بات کی جائے تو آنحضرت محمد نے عورت کو باپ اور شوہر کے ترکہ میں بھی حصہ دلوایا۔
غرض زندگی کے ہر معاملے میں عورت کو خود مختار اور پر اعتماد شخصیت کا حامل بنایا۔ عورت کے حقوق تعین کر کے دنیا کو یہ بآور کروایا کہ عورت کسی سے کم نہیں۔ ماں کے قدموں تلے جنت قرار دی، اور ماں کی عزت و احترام کو باپ پر فوقیت دی۔
دین اسلام نے خواتین کو جو مقام دیا ہے اس کی وہ رہتی دنیا تک ممنون رہیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ کے لئے خواتین ایک خاص عقیدت، احترام، محبت کا جذبہ رکھتی ہیں جو کہ مردوں سے کسی طور بھی کم نہیں۔ رحمت دو جہاں کے یوم پیدائش ۱۲ ربیع اول کی خوشی میں خواتین خاص اہتمام سے یہ دن مناتی ہیں۔ گھروں کو مکمل طور پر صاف ستھرا کیا جاتا ہے۔ صفائی کے بعد گھر میں اگر بتی جلائی جاتی ہے جس سے ساری فضا خوشبو سے معطر ہو جاتی ہے۔ بچوں کو نہلا کے صاف ستھرے کپڑے پہنائے جاتے ہیں جبکہ کھانے میں میٹھا بنانے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ میٹھا نہ صرف گھر والوں کے لئے بنایا جاتا ہے بلکہ رسول پاک کی پیدائش کی خوشی میں محلے بھر میں تقسیم بھی کیا جاتا ہے۔ اکثر خواتین اپنے گھر میں میلاد کا انعقاد کرتی ہیں جس میں آس پاس کے محلے سے خواتین سفید رنگ کے قیمتی لباس زیب تن کیے شرکت کرتی ہیں۔ سفید رنگ کے لباس کو ترجیح اس لئے دی جاتی ہے کیونکہ یہ رنگ پاکیزگی کی علامت ہوتا ہے۔ خواتین مل کے نبی پاک کی شان اقدس میں گلہائے عقیدت پیش کرتی ہیں۔ یہ ان کا ہمارے پیارے نبی سے والہانہ پیار کا اظہار ہے۔ اس کے علاوہ سارا دن درود و سلام کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
اس دن آپ کی تعلیمات پر کار بند رہنے کا عزم بھی کیا جاتا ہے۔ خواتین سارا دن کام کاج کے دوران درود شریف کا ورد جاری رکھتی ہیں۔انکی کوشش ہوتی ہے کہ رسول اللہ پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام بھیجیں۔
میں سو جاﺅں یا مصطفی کہتے کہتے
کھلے آنکھ صلِ علےٰ کہتے کہتے
تعلیمی اداروں میں ۱۲ربیع اوّل کی مناسبت سے محفل نعت اور سیرت کانفرنس کا انعقاد ہوتا ہے جس میں خواتین بہت ذوق و شوق سے شرکت کرتی اور حصہ لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ٹی وی چینلز پر رسول پاک سے عقیدت کے طور پر خواتین کی محفل نعت نشر کی جاتی ہیں۔ جس میں خواتین نعت خواں پیارے نبی کی شان میں اپنی عقیدت کا اظہار کرتی ہیں۔