سرکار ﷺ وجہِ تخلیقِ کائنات
سید محمد حبیب عرفانی چشتی
ابتدائے آفرینش سے پہلے ایک وقت، ایک دور، ایک زمانہ ایسا تھا کہ یہ کائنات ہی تخلیق نہیں ہوئی تھی اس وقت نہ کوئی زمانہ نہ کوئی مقام نہ کوئی وقت تھا، نہ سورج نہ چاند نہ یہ زمین نہ آسمان بنا تھا، نہ پہاڑ نہ سمندر کچھ بھی نہیں تھا۔ اس وقت نہ زماں تھا نہ مکاں تھا نہ کیفیات تھیں، وہ مالک وہ خالق اُس وقت بھی تھا جب کچھ بھی نہیں تھا تو اس وقت وہ یکتا ذات جس نے یہ سب کچھ تخلیق کیا، اس نے اپنے آپ کو دیکھا، اپنا خود نظارہ کیا اور جب اُسے اپنی ذات پر پیار آیا تو اپنے ہی نظارے میں کھو گیا، اپنی ذات سے خود محبت ہوئی اور اس نظارے میں، اس وقت میں، اس محبت میں اپنے آپ کو جاننا چاہا کہ کوئی تو ہو جو اس کی پہچان کرائے، اُس کی کبریائی کا اعلان کرے، اس کے خالق ہونے کا اعلان کرے۔ تو اُس وقت اُس نے وہ ایک پیکرِ مجسم، وہ ایک شبیہ تخلیق کی جس کے بارے میں ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ ارشاد فرمایا اورکہا اے میرے محبوب! اے اس کائنات کی وجہِ تخلیق، اے میری محبت اگر آپ نہ ہوتے، اگر آپ کا وجود نہ ہوتا، آپ کا تصورِ خیال نہ ہوتا، اگر آپ کی شبیہ نہ ہوتی تو میں اس کائنات کو ہی تخلیق نہ کرتا۔ اُس وقت اُس نے اس ذات مبارک کو تخلیق کیا جو احمد ہیں، جو محمد ہیں، جو مصطفی و مجتبیٰ ہیں، جو مزمل و ہادی ہیں، جو رہبر ہیں، جو سب کچھ ہیں اور ’’یہ تو اللّٰہ تعالیٰ ہی کو خوب علم ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھتا ہے۔‘‘ (الانعام:124)
کہ وہی ذات ہے جس کو پتہ ہے کہ اس کائنات میں اُس نے نبوتیں کس کس کو، کہاں، کب، کیسے اور کیوں دینی ہیں۔ وہ ذات کہ جب اس نے ارواح کو تخلیق کیا تو ان سے پوچھا ’’کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے کہا ہاں بے شک ہے ہم اس کا اقرار کرتے ہیں۔‘‘ (الاعراف:172)
پھر اُس نے اُن ذاتوں کو تخلیق کیا جو اُس کے محبوب کی سب سے بڑھ کر مدح و ثنا کرنے والے ہیں، جو اُس کے محبوب کے بارے میں اس کائنات کو آگاہی دینے والے ہیں اس وقت ارشاد فرمایا کہ
’’اور جب اللہ تعالیٰ نے سارے پیغمبروں سے پختہ عہد لیا تھا کہ جب بھی میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں گا۔ پھر اسی عالم میں تمہارے ہاں وہ رسولِ برحقؐ تشریف لے آئیں جو اس کتابِ حق کو جو تمہارے ساتھ ہوگی سچا بتائیں تو تمہیں لازماً ان پر ایمان لانا ہو گا اور ان کی مدد کرنا ہو گی۔‘‘ (آلِ عمران:81) ۔پھر وہ میری محبوب ذات پھر وہ میرے محمد پھر وہ تم سب کے محمدؐ تم میں تشریف لے آئیں اور اُن کی نشانی اور پہچان یہ ہو گی کہ جو کچھ تمہیں کتاب و حکمت عطا کیا جائے گا وہ اُس کی تصدیق فرمانے والے ہوں گے۔ پھر وہ جس وقت اس کائنات میں تشریف لے آئیں، جس وقت بھی اُن کا اس کائنات میں ظہور ہو جائے، جس وقت بھی اُن کی اس کائنات میں بعثت ہو جائے، جس وقت بھی وہ اپنے رُخِ مبارک سے پردہ ہٹا دیں، اپنے آپ کو تمہارے سامنے ظاہر کر دیں اس وقت ایک بات یاد رکھنا کہ اس وقت تمہیں ایک ہی کا م کرنا ہو گا کہ تمہیں اُن پر ایمان لانا ہو گا۔ یہ شرط رکھ دی یہ تاکید کر دی کہ تمہیں اُن پر ضرور ایما ن لانا ہوگا اور پھر تمہیں اُن کی مدد بھی کرنا ہو گی۔ یہ بات یہیں تک نہیں بلکہ یہ ارشاد فرمایا
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے پیغمبرو کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ بہت بھاری ذمہ داری قبول کرتے ہو‘‘ (آلِ عمران:81) ،تو سب انبیاء کی ارواح نے جواب دیاکہ باری تعالیٰ ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’تم اس عہد و اقرار کے گواہ رہنا اور میں خود اس کی شہادت میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔‘‘ (آلِ عمران:81)آئو میں تمہیں شہود کرائوں، اُس ذاتِ متبرک کا دیدار کرائوں، ان کا جلوہ اور چہرۂ تاباں دکھائوں کہ جب وہ اس کائنات میں تمہارے سامنے تشریف لے آئیں تو تمہیں پہچاننے میں دقت نہ ہو، اور یہ میرے محبوبؐ کی ذات ہے اور محبوب ایسے ہیں کہ جن کی خاطر جن کے لیے میں نے یہ زمین و آسمان تخلیق کیے، یہ سورج اور چاند ستارے، یہ سمندر پہاڑ تخلیق کیے۔ جن کی خاطر میں نے ہوائوں کو روانی، سمندروں میں طغیانی، جن کی خاطر ساری خوبصورتیاں اس کائنات میں رکھیں، زمیں کو مختلف چیزوں سے آراستہ کیا، سبزوں سے مزین کیا، آسمان کو نیلاہٹ دی تو یہ ساری اُسی ایک ذات کے صدقے میں کہ جو میرے محبوبؐ ہیں۔انہیں بھولنا نہیں، اُن کے چہرۂ انور کو یاد رکھنا کہ یہ میرے محبوبؐکی ذات ہے اور اُن کے شہود میں، اُن کے دیدار میں مَیں تمہارے ساتھ ہوں کہ یہ ذات میرے محبوبؐ کی ذات ہے، یہ میرے محبوبؐ ہیں یہ وہ ہیں جو ہماری آنکھوں میں بستے ہیں، یہ نبی کریمؐ کی ذات ہی ہیں جن کے لیے یہ سارا کچھ تخلیق کیا ہے۔انہی کی وجہ سے آدمؑ کو تخلیق ملی، آدم ؑ کو وجود ملا اور وجود بھی ایسے کہ یہ وہ ہیں جنہیں میں نے اپنے ہاتھوں سے تخلیق کیا۔ (صٓ:75)
وہ اللہ جو ہر عمل سے ماورا ہے اُس کا کُن کہنا اور کُن کہنے سے پہلے اُس کا ارادہ کرنا اور جب ارادہ کرتا ہے تو وہ بات ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ وہ ملبوس ہے، یہ وہ ہیئت ہے، یہ وہ جسم ہے، یہ وہ پیکر ہے کہ جس میں اُس کے محبوبؐ نے اس کائنات میں تشریف لانا ہے۔ یہ وہ ذات ہے کہ جنہیں اللہ پاک اپنے ہاتھوں سے تخلیق کیا اور پھر اپنی روح اس میں پھونک دی۔
اور پھر جب اپنی روح پھونک کر ان میں زندگی دی، جان ڈالی توارشاد فرمایا ’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت عطا کی ہے۔‘‘ (بنی اسرآئیل:70) اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں آدم ؑکو عزت اور توقیر عطا فرمائی۔ پھر بنی آدم کو اس پوری کائنات میں ہر شے سے بڑھ کر عزت، مقام اور مرتبہ عطا فرمایا۔
انبیائے کرام کا سلسلہ نبی کریمؐ کی ذات تک چلتا رہا اور جمیع انبیاء کرام کی عزتیں، ادب اور توقیر سب پر لازم ہوئیں ۔جب نبی کریمؐ اس کائنات میں تشریف لے آئے تو پھر باایمان لوگوں کے لیے اُس ذات کو معین فرما دیا۔
نبی کریم ؐکی ذات کا ادب و احترام کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ’’اے ایمان والو اپنی آوازیں حضور نبی اکرمؐ کی آواز سے اونچی نہ ہونے دیا کرو‘ اگر تم نے ایسا کیا تو تمہارے تمام کے تمام اعمال بے کار کر دئیے جائیں گے، اور تمہیں اس کا شعور بھی نہیں ہو گا۔(الحجرات:02)نبی کریمؐ کا کوئی بھی عمل، کوئی بھی بات ایسی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور مرضی کے خلاف ہو اس لیے کہ وہ اُس کے محبوب ہیں ۔یہ نبی کریمؐ کی ذات ہے کہ جن کے لیے عزت، ادب اور توقیر کے الفاظ کو اس کی بارگاہ سے سند ملی۔ ایمان کی اوّلین شرائط میں سے یہی ایک شرط ہے، جس طرح نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ لایؤمن أحدکم حتٰی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین (بخاری شریف:15) اے باایمان لوگو! اس بات کو یاد رکھو، اس بات کا دھیان رکھو، اس بات کا ادراک کرو، اس بات کو جانو، اس بات کو سمجھو کہ لایومن احدکم تم میں کوئی ایک بھی اُس وقت تک باایمان نہیں ہے حتٰی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین کہ جب تک اُس کی مجھ سے محبت اپنے والدین، اپنی اولاد اور جمیع کائنات سے بڑھ کر نہ ہو۔ یہ شرطِ ایمان ہے۔ قرآن مجید اللّٰہ تعالیٰ کا برحق کلام ہے لیکن قرآن مجید وہ ہے جو نبی کریمؐ کے لبِ مبارک سے نکلا اور سب ایمان والوں نے کہا آمنا و صدقنا۔ یہ باایمان ہونے کی علامت اور نشانی ہے۔
وہ اللہ وہ معبود و خالق جب اس نے اپنی محبت کو اس کائنات میں بھیج دیا تو اس نے یہ کہہ دیا کہ اب ان میں عذاب نہیں آئے گا ورنہ اس سے پہلے جو انبیائے کرام آتے رہے ان کی امتوں پہ عذاب نازل ہوتے رہے۔ پھر یہ ارشاد ہوا ’’یہ آج کا دن ہے کہ میں تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر چکا ہوں،میں اپنی ساری نعمتیں تم پر تمام کر چکا ہوں۔‘‘ (المآئدۃ:03) ’’اے نبی مکرمؐ بے شک ہم ہی نے آپؐ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے اور خوشخبری دینے ولا اور ڈرانے والا بھی۔‘‘ (الاحزاب:45)۔آپ ؐان کو حق و سچ کی بات کہنے، نیکی و بدی کی تمیز دینے والے ہیں۔باری تعالیٰ ہمیں اس ذات مبارک شفیع المذنبین پر ہمیشہ درود و سلام پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین