ریڈیالوجی اور پتھالوجی
فرزانہ چودھریfarzanach95@yahoo.com
یہ بات تو زبان زدعام ہے کہ صحت اور تعلیم حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اور حکومتی اقدامات۔ مریضوں کے علاج معالجے میں سہولیات کا فقدان ایک عرصہ سے زیربحث ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بچوں کی صحت کے لحاظ سے پاکستان کا شمار بدترین ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں ایک کروڑ ستر لاکھ بچے پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ گورنمنٹ ٹیچنگ ہسپتالوں سمیت ڈسٹرکٹ وتحصیل ہیڈ کواٹرز ہسپتال اور بنیادی دیہی مراکز صحت میں علاج معالجہ کی سہولیات میسر نہ ہونے سے مریض جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ کیونکہ بیماری کی تشخیصی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے کئی مریض بیماری کی اس سٹیج پر پہنچ جاتے ہیں کہ جہاں اس بیماری کا علاج ہی ممکن نہیں۔ یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ صحت کے ایک کھرب اسی ارب روپے کے بجٹ میں سے صرف پچاس فیصد ہی خرچ کئے جاتے ہیں۔ آخر صحت کا سارا بجٹ مریضوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے کیونکر خرچ نہیں ہوتا اور جان بوجھ کر یہ رقم کس کام کے لیے کی بچائی جاتی ہے؟ حکومت پنجاب نے عوام الناس کو مؤثر طریقے سے علاج معالجے اور تشخیص کی سہولیات کی فراہمی کے لئے نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے غیر منافع بخش شفا خانوں اور مراکز صحت کو سرکاری وسائل مہیا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کے صحت کے شعبے پر یقیناً گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ جن کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے غیر منافع بخش شفاخانے یا مراکز صحت کی آڑ میں دراصل ان ٹرسٹ ہسپتالوں کو نوازنے کا منصوبہ ہے جو میڈیکل کی تعلیم کے لئے نجی شعبے میں قائم ہونے میڈیکل کالجز سے وابستہ ہیں۔ نجی میڈیکل کالجز طلبا سے بھاری بھر کم فیسیں وصول کرتے ہیں اور ٹرسٹ ہسپتال کے نام پر بھاری ’’چندہ‘‘ الگ سے وصول کیا جاتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں سے وابستہ تشخیصی سہولیات اگر نجی شعبے کے ایسے ٹرسٹ ہسپتالوں کے سپرد کر دی جاتی ہیں تو اس کا نتیجہ اخذ کرنا چنداں مشکل نہیں ہو گا۔یاد رہے کہ نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے غیر منافع بخش مراکز صحت میں ملکی اور غیر ملکی دونوں طرح کی تنظیمیں یا ادارے شامل ہیں۔جن سرکاری شفا خانوں یا مراکز صحت کو نجی شعبے کے حوالے کرنے سے قبل ان نجی اداروں کی ایک فہرست مرتب کی جا رہی ہے اور اس فہرست کی حکومتی سطح پر منظوری کے بعد اس میں شامل ہر ادارے کے لئے بجٹ مختص کرنے کا عمل شروع کیا جائے گا اور اس کی حتمی منظوری محکمہ صحت پنجاب کی جانب سے دی جائے گی۔ پنجاب حکومت نے ہسپتالوں کی نجکاری کا معاہدہ پانچ سال کیلئے بذریعہ طیب اردگان ہسپتال ٹرسٹ کے ساتھ کیا ہے جس میں تین نجی کمپنیاں پی ایم یو، پی ایچ آئی ایم سی اور پی ایچ ایف ایم سی شامل ہیں۔ جنوبی پنجاب میں سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ملتان سراپا احتجاج ہے۔ 15 جنوری کو جب پی ایچ ایف ایم سی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد علی عامر گورنمنٹ امراض کڈنی ہسپتال ملتان کو ٹیک اوور کرنے آئے تو پی ایم اے ملتان کے زیر اہتمام احتجاجی جلوس نے انہیں بزور طاقت ٹیک اوور کرنے سے روک دیا۔ لاہور میں بھی ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف تمام ڈاکٹرز تنظیمیں، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن، سپیشلسٹ کیڈر ایسوسی ایشن، فیملی فزیشن ایسوسی ایشن، ایڈمنسٹریٹو کیڈر ایسوسی ایشن سمیت نرسز ایسوسی ایشن اور الائیڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا الائنس بن گیا ہے۔ آئندہ چند دنوں میں نجکاری کے خلاف احتجاجی سلسلہ شروع ہوگا۔شنید یہ ہے کہ یو ایس ایڈ اور ڈبلیو ایچ او ایڈ کے استعمال میں غیرشفافیت کی بنا پر یونائیٹڈ سٹیٹ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ساتھ اپنی ایڈ مشروط کر دی ہے جس کی وجہ سے حکومت نے پرائیویٹ پارٹنرشپ کو سرکاری ہسپتالوں میں متعارف کروایا۔ سرکاری ہسپتالوں میں پرائیویٹ پارٹنرشپ کے حوالے سے پنجاب اور سندھ کی حکومتیں سرگرم عمل ہیں اور دونوں صوبوں کی معروف لیڈر شپ اس پراجیکٹ کی بیک پر ہے۔ سندھ میں (ضیاء الدین ہاسپٹل) این جی او انڈس گروپ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر صبا جمیل اس پراجیکٹ میں سرگرم عمل ہیں۔ریڈیالوجی اور پتھالوجی ڈیپارٹمنٹ ہسپتال کیلئے سونے کی چڑیا ہوتے ہیں اس شعبہ سے متعلقہ ہسپتال کو کچھ نہ کچھ آمدن بھی حاصل ہوتی ہے جو ہسپتال کے لئے ایک ہلپنگ ہینڈ سمجھا جاتا ہے۔ہسپتالوں کی آؤٹ سورسنگ کے سلسلہ میں لاہور کے سترہ ہسپتالوںکے ریڈیالوجی اور پتھالوجی کے شعبے، نجی کمپنیوں کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔ معاہدے میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ ہر ماہ دوسو سی ٹی سکین کا بل پرائیویٹ کمپنی کو گورنمنٹ ہرصورت ادا کرے گی اور صرف ایک ریجن ٹیسٹ کے 45 سو روپے( گورنمنٹ ہسپتال تین سوروپے لیتا ہے) وصول کرے گی جو کہ 90 لاکھ روپے بنتے ہیں۔اگر مہینے میں ہزار پندرہ سو سی ٹی سکین ہوجاتے ہیں تو اندازہ لگا لیں کہ کتنی رقم نجی کمپنی کی جیب میں جائے گی ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت نے اس نجی کمپنی کیلئے ریڈیالوجی اور پتھالوجی ٹیسٹ کی تمام مشینری نئی خریدی ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ میو ہسپتال کیلئے 55 کروڑ روپے کی، سروسز ہسپتال کیلئے 67 کروڑ روپے کی اور PIC کیلئے 50 کروڑ روپے کی سی ٹی سکین اور MRI مشینیں خریدی جا چکی ہیں اور ان مشینری کی خرابی کی صورت میں پانچ سال کی مرمت اور maintainance بھی حکومت کے ہی ذمہ ہو گی۔ ریڈیالوجی اور پتھالوجی ڈیپارٹمنٹ میں ہسپتال کے کسی سرکاری ملازم کا عمل دخل نہیں ہو گا۔ پی جی ایم‘ اے ایم سی اور لاہور جنرل ہسپتال کے ڈیپارٹمنٹ آف پتھالوجی کی 2017ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پوسٹ گریجوایٹ ٹیچنگ اینڈ ٹریننگ میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے والے 24 طالب علموں کے 338 لیکچر ہوئے۔ 150 سیمینارز ہوئے‘ 445 پریکٹیکل ہوئے‘ 30 اسائنمنٹس کی گئیں جبکہ انڈر گریجوایٹ ٹیچنگ اینڈ ٹریننگ فورتھ ائر کے 104 طالب علموں نے 150 لیکچر لئے۔ 80 پریکٹیکلز کئے اور 80 ٹیوٹوریل میں حصہ لیا جبکہ تھرڈ ائر کے 102 طالب علموں نے 223 پتھالوجی‘ 80 پریکٹیکلز اور 80 ٹیوٹوریل میں حصہ لیا۔ڈیپارٹمنٹ آف پتھالوجی کی 2017ء میں آمدن 15782865 روپے تھی۔ 405699 مریضوں نے پتھالوجی لیب سے ٹیسٹ کروائے جن میں 82 فیصد (332810) مریض فری ٹیسٹ کے تھے۔ کل ٹیسٹ 2709230 ہوئے۔ جس میں ہیموٹالوجی ٹیسٹ کی تعداد 498657‘ کیمیکل پتھالوجی ٹیسٹ 1863101‘ مائیکرو بائیالوجی ٹیسٹ 81779‘ ہسٹو پتھالوجی ٹیسٹ کی تعداد 8357‘serology ٹیسٹ 212798‘ سپیشل کیمسٹری ٹیسٹ 40291 اور متفرق ٹیسٹوں کی تعداد 4247 ہے۔ ایم آر آئی ٹیسٹوں کی گزشتہ سال جنوری سے سمبرتک کل ٹیست کی تعداد 15598 ہے جن میں5129 ٹیسٹ مفت ،پچاس فیصد رعایت پر 5752 ٹیسٹ ،زکوٰۃفنڈ سے694 ٹیسٹ اور 3617 غریب مریضوں کے ہوئے۔اس ڈیٹا سے یہ بات تو واضح ہے کہ غریب مریض فری ٹیسٹوں کی سہولت سے مستفید ہو ئے مگر پرائیویٹ پارٹنرشپ کی وجہ سے یہ سہولت تو آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ میڈیکل کے انڈر گریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ طالب علم بھی پریکٹیکلز ‘ لیکچر‘ ریسرچ ،اسائنمنٹ کی تیاری وغیرہ سے محروم ہو جائیں جس کی وجہ سے ان کی میڈیکل تربیت میں کمی رہ جائے گی۔ ایسے نامکمل تربیت یافتہ ڈاکٹرز مریضوں کا ٹھیک علاج کیونکر کر پائیں گے۔
حکومت پنجاب کی جانب سے سرکاری ہسپتالوں کے ریڈیالوجی اور پتھالوجی کے شعبہ جات نجی شعبے کے حوالے کرنے کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد اس کو مختلف ہسپتالوں کے پروفیسرز اور سینئر ڈاکٹرز کی جانب سے مسترد کیا جا رہا ہے۔ ابتدائی طور پر لاہور جنرل ہسپتال کے فیکلٹی ممبرز نے اس فیصلے کے خلاف یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ شعبہ جات قائم کرنے میں ایک طرف سرکاری خزانے سے بھاری رقوم فراہم کی گئی تھیں تو دوسری جانب متعلقہ ماہرین اور سینئر ڈاکٹرز کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں آج یہ دونوں شعبہ جات اپنے موجودہ قابل فخر مقام تک پہنچے ہیں۔ پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل کالج ہونے کی حیثیت سے میں یہ ادارہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر جانا اور پہچانا جاتا ہے اور ان شعبہ جات میں نہ صرف ادارہ ہذا بلکہ دیگر میڈیکل کالجز کے طلبا و طالبات کو بھی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ اسی طرح ان شعبہ جات سے ہزاروں مریض کو 24 گھنٹے تشخیصی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایم بی بی ایس کے سال سوم اور چہارم کے طلبا و طالبات کو بھی ریڈیالوجی اور پتھالوجی کی تربیت اسی ادارے میں فراہم کی جاتی ہے۔امیر الدین پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پوسٹ گریجوایٹ درجے تک تعلیم و تربیت فراہم کرنے والا واحد ادارہ ہے اور عالمی سطح پر ایک منفرد پہچان کا حامل ہے۔ اگر اس کے ریڈیالوجی اور پتھالوجی کے شعبہ جات نجی شعبے کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں یہاں زیر تعلیم و تربیت سینکڑوں طلبا و طالبات کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ اسی طرح نجی شعبے میں جانے کے بعد ادارہ ہذا کے سینئر اساتذہ ان شعبہ جات کی نگرانی نہیں کر سکیں گے۔ جس کی وجہ سے یہاں فراہم کی جانے والی خدمات کے معیار پر لامحالہ منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ان شعبہ جات کے قیام اور ان کو چلانے پر صرف ہونے والا قومی سرمایہ اور ماہرین و ڈاکٹر حضرات کی محنت ضائع ہو جائے گی نیز ان اداروں میں خدمات سرانجام دینے والے ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل سٹاف کا روزگار خطرے میں پڑ جائے گا اور اس سے بھی زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ عالمی سطح پر یہ ادارہ اپنی منفرد شناخت اور پہچان سے محروم ہو جائے گا۔ان شعبہ جات کو نجی اداروں کے سپرد کرنے کی بجائے ان کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے پر توجہ دینا بہتر ہو گا اور اس مقصد کے لئے ان اداروں کے تکنیکی و مالی وسائل میں اضافہ کیا جائے اور ان شعبہ جات کے سربراہان کو مالی‘ انتظامی و تکنیکی حوالے سے مزید بااختیار بنایا جائے۔
ان شعبہ جات کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ صرف پتھالوجی کے شعبے میں ایک ماہ کے دوران میں 221721 میڈیکل ٹیسٹ کئے گئے اور اس سے مستفید ہونے والے مریض کی تعداد 31875 رہی۔ ان میں سے 80 فیصد مریضوں کو یہ سہولت بلامعاوضہ فراہم کی گئی۔ 20 فیصد صاحب حیثیت مریضوں سے وصول کیا جانے والا معاوضہ سرکاری خزانے میں جمع کروایا گیا اور یوں یہ شعبہ جات سرکاری خزانے کے لئے بھی بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنا سرکاری وسائل اور ڈاکٹرز و ماہرین کی انتھک محنت کو دریا برد کرنے کے مترادف ہو گا۔ حکومت کو چاہئے کہ ان اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی بجائے ہر چھوٹے بڑے شہر تک ایسے اداروں کا قیام یقینی بنایا جائے تاکہ عوام الناس کو علاج معالجے اور تشخیص کی بہترین سہولیات میسر آئیں۔ ان تمام وجوہات کی بنیاد پر ہسپتال میں پروفیسر محمد معین کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹی نے متفقہ طور پر یہ درخواست کرتی ہے کہ ان شعبہ جات کو مستثنیٰ قرار دے کر انہیں نجی شعبے کے حوالے نہ کیا جائے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر اظہار چودھری نے بتایا ’’ماضی میں حکومت کی طرف سے جلد بازی میں کئے جانے والے ایسے یکطرفہ فیصلوں نے میڈیکل پروفیشن کو تباہی کے کنارے پہنچا کر رکھ دیا ہے 1997ء میں پبلک سروس کمشن کی طرف سے مستقل بھرتیوں کے خاتمہ کے فیصلہ نے تمام طبی تعلیمی اداروں کو مفلوج کیا تو بالآخر 2009ء میں حکومت نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر اپنے ہی فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے پبلک سروس کمشن سے بھرتی بحال کی مگر آئندہ 20 سال اس کی کمی کو پورا کرنے میں لگ جائیں گے۔حالیہ فیصلہ بھی ان اداروں کی تباہی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا اور سمجھ آنے تک اتنی دیر ہو چکی ہو گی کہ سنبھلنا ناممکن ہوگا۔ لاہورجنرل ہسپتال کے پتھالوجی ڈیپارٹمنٹ کی سالانہ رپورٹ سے واضع ہے کہ وہ اپنے محدود وسائل اور افرادی قوت کے ساتھ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اب تو حکومت کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے کہ ان کی نجکاری کرے۔ ان اداروں پر ناقص کارکردگی کا محض ایک الزام ہے۔اس رپورٹ سے یہ بھی واضع ہے کہ انڈر گریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ کی تعلیم میں اس ڈیپارٹمنٹ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور مریضوں کے ٹیسٹوں کی تعداد کو دیکھ کر یہ وضاحت سامنے آئی ہے کہ ان کی کارکردگی اپنے محدود وسائل اور افرادی قوت سے کہیں بڑھ کر ہے اور یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ اس محکمہ سے سالہا سال سے منسلک ڈاکٹرز اور سٹاف اپنے کام میں مہارت رکھتے ہیں اور یہ مقام انہوں نے اپنی علمی صلاحیتوں، محنت اور تجربہ کے بل بوتے پر حاصل کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوںاس جلد بازی کے فیصلہ پر حکومت کو نظرثانی کی ضرورت ہے۔ایک جمہوری حکومت سے ایسے فیصلے کی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی کہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر اتنے اہم فیصلہ کی ڈور چند لوگوں کے ہاتھوں میں تھما دی جائے۔ اس فیصلہ سے عوام الناس کوملنے والی صحت کی سہولیات زیادہ ابتری کا شکار ہوں گی جبکہ حکومت وقت کی پارٹی کے منشور میں صحت‘ تعلیم کی مفت فراہمی بنیادی نعرہ ہے۔ نجکاری سے میڈیکل پروفیشن اپنی قدر و منزلت کھو دے گا۔ حکومت وقت کا یہ فیصلہ تو ’’ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ‘‘کے مترادف ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات کی مفت فراہمی عوام الناس کا آئینی حق ہے اگر حکومت کسی طریقے سے بھی ان اداروں سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتی ہے توہمیں اور تمام عوام کو اس کا جواب چاہئے کہ اس کا متبادل کیا ہو گا؟ پی جی ایم آئی کی اکیڈمک کونسل نے نجکاری کے حکومتی فیصلہ کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا ہے۔ کیا اب بھی اس فیصلہ کا جواز باقی ہے؟ میں آپ کو میو ہسپتال کی مثال دوں گا۔ وہاں سی ٹی سکین 300 روپے میں ہوتا ہے جبکہ حکومت نے ایک غیر منافع بخش کمپنی سے صرف ایک ریجن کا سی ٹی سکین 45 سو روپے میں کرنے کا معاہدہ کیا ہے یعنی ہر ریجن کے سی ٹی سکین کے پنتالیس وصول کیے جائیں گے۔ جبکہ سی ٹی سکین فلم کی قیمت 140 روپے سے 180 روپے ہے حکومت کی نجی کمپنی سے یہ ڈیل سمجھ سے باہر ہے۔ اگر کوئی شخص کسی ادارے میں اپنا کاروبار کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کاروبار کے لئے سرمایہ کاری خود کرتا ہے اور ادارے میں کاروبار کے لئے اڈا ملنے کے عوض سپیشل ڈسکاؤنٹ دیتا ہے جبکہ یہاں حکومت اربوں روپے کی پتھالوجی اور ریڈیالوجی لیب کے لئے مشینری خود خرید کے نجی کمپنی کو دے رہی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہسپتالوں کی افرادی قوت بہترین سہولیات کی فراہمی کے لئے نئی مشینری کا مطالبہ ایک عرصہ سے محکمہ صحت سے کرتی چلی آ رہی ہے مگراس کو ہمیشہ یہی جواب ملا کہ فنڈز کی کمی ہے مگر اچانک نجی کمپنی کے لئے میو ہسپتال‘ سروسز ہسپتال‘ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور چلڈرن ہسپتال وغیرہ کے پتھالوجی اور ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے لئے عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے اربوں روپے کی مشینری خرید لی جاتی ہے ‘‘۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن لاہور کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اجمل حسین نقوی نے بتایا’’ امراض کے پتھالوجی اور ریڈیالوجی ٹیسٹ مریضوں کے علاج کے سلسلے میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اسی طرح طبی تعلیم میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ شعبہ نجی کمپنی کے پاس چلا جائے گا تو اس ہسپتالوں کے میڈیکل کالج کے طلب علموں کی پتھالوجی اور ریڈیالوجی کی عملی تربیت اور ریسرچ کے عمل کو کیسے جاری رکھیں گے؟ کیونکہ نجکاری سے قبل یہ ڈیپارٹمنٹس انڈر گریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ طلب علموں کے لئے مختص تھے۔ سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کو روکنے کیلئے پنجاب ہیلتھ پروفیشنل الائنس (PHPA) بنا ہے اور پنجاب ہیلتھ پروفیشنل الائنس کا سنگل پوائنٹ ایجنڈا ہے کہ تمام سرکاری ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ ہسپتالوںکی نجکاری کے معاہدے پر عمل درآمدکو روکنا ہے۔ اس سلسلہ میں 22 جنوری کو پنجاب ہیلتھ پروفیشنل الائنس ایک میٹنگ میں لائحہ عمل طے کرے گی ۔ پریس کانفرنس میں باقاعدہ احتجاج کا اعلان کیا جائے گا۔ نجکاری کے فیصلے کو کالعدم قرار دلوانے کیلئے جائز طریقے سے جو بھی پی ایچ پی الائنس کو کرنا پڑا کریں گے اور مریضوں کے علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے ۔ احتجاج کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج معالجہ جاری رہے گا۔ ہم سمجھتے ہیں نجکاری غریب مریضوں کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ہے۔ حکومت چند ماہ تو سبسڈی دے کر مریضوں کو علاج کی مفت سہولت فراہم کرے گی مگر اس کے بعد مریض اپنے علاج کے اخراجات خود برداشت کریں گے جو کہ پاکستان کے آئین اور حکومت وقت کے پارٹی منشور کی بھی نفی ہے۔لاہور کے گرد و نواح میں واقع پانچ پیری فیری ہسپتال ایک این جی اوز کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ جبکہ لاہور کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں پتھالوجی اور ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کو پہلے مرحلے میں ہینڈ اوور کیا جا رہا ہے‘‘۔