نفسانی خواہشات کی پیروی ہدایت سے محروم
خالدہ جمیل
دین اسلام آدمی کیلئے اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ صرف خدا کا بندہ ہے، نہ نفس کا نہ باپ دادا کا نہ خاندان اورکسی قبیلے کا۔ یعنی اصل اسلام اصل دین خدا کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ خدا کی عبادت کے معنی یہ نہیں کہ بس پانچ وقت اس کے آگے سجدہ کر لو بلکہ اس کی عبادت کے معنی یہ ہیں کہ رات دن ہر وقت اس کی اطاعت میں گزارو۔ جس چیز سے منع کیا گیا ہے اس سے رک جائو۔ جس چیز کا اللہ پاک نے حکم دیا ہے اس پر عمل کرو۔ ہر معاملہ میں یہ دیکھو کہ خدا کا حکم کیا ہے۔ یہ نہ دیکھو کہ تمہارا دل کیا کہتا ہے۔ تمہاری عقل کیا کہتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جس نے خدا تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کی۔ ایسے لوگوں کو خدا ہدایت نہیں دیتا۔ نفس کی خواہش کی پیروی کرنے والا تو ہر وقت یہ دیکھے گا کہ مجھے روپیہ کس کام میں ملتا ہے۔ میری عزت وشہرت کس کام سے ہوتی ہے۔ مجھے لذت ولطف کس کام میں حاصل ہو تا ہے۔ مجھے آرام وآسائش کس کام میں ملتی ہے بس یہ چیزیں جس کام میں ہوں گی اس کو وہ اختیار کرے گا۔ نفس کے حکم کے بعد انسان جب خدا کے حکم کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کا حکم ماننے لگتا ہے اور اپنے جیسے بندوں سے اپنی روٹی روزی وابستہ کر لیتا ہے۔ اس لئے اس کی فرمان برداری پر اتر آتا ہے ۔ چنانچہ ایسے شخص پر خدا کی ہدایت کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ…’’اگر تو نے ان پر بہت سے لوگوں کی اطاعت کی جو زمین میں رہتے ہیں تو وہ تجھ کو خدا کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔‘‘
کیونکہ اسلام کے نزدیک ترقی کا اصل مطلب صرف دینی ترقی ہے جس سے مال وعزت اور حکومت کی تمام ترقیاتی خودبخود حاصل ہو جاتی ہیں اور اگر یہ مراد وہ حدود شریعت کے اندر رہ کر پاتا ہے تو بھلائی ہے ورنہ یہ نفسانی خواہش خسارہ ہی خسارہ ہے ۔
بیشک آج ہم مسلمان ہیں مگر اکثر خدا کے احکام کو چھوڑ کر نفس کا حکم ماننا بندوں کی اطاعت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اس لئے جو کام کرتے ہیں جوش سے کرتے ہیں ہوش سے نہیں کرتے۔ آج مسلمانوں میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے ان خرابیوں کو دور کیا جائے اور ان کی اخلاقی و معاشرتی اصلاح پر توجہ دی جائے۔ رسول کریمؐ نے کل مومن اخوت کی زنجیر میں پروئی اپنی امت کو ایسا حکم دیا تھا کہ کسی ایک فرد کی ذمہ داریوں میں دوسرے سے کوئی تفریق کوئی امتیاز روا نہ رکھا تھا۔ ایک شخص جو رات کو شب بیدار زاہد تھا، دن نکلتے ہی کسب معاش کا ذمہ دار تھا۔ وہی قانون کا محافظ تھا، ورہی خادم تھا، وہی مخدوم تھا اور وقت پڑنے پر وہی مرد میدان اور غازی وشہید تھا۔ علم وفضل کی زیادتی کسی کو معاشرتی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرتی تھی نہ زہدوتقویٰ کی فراوانی، صفات میں کمی بیشی۔دین اسلام نے مکمل یکسانیت کا اہتمام کیا تھا۔ اگر ہم ذرا سی نفس کشی کرکے اس کو اپنا شعار بنا لیں اور ہر مسلمان سے خواہ کتنا ہی اعلی ومعتبر ہو، انکسار سے ملے تو کھوئی ہوئی اس میراث کو پایا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے غروروتکبر کو کسی حد تک ترک کرنا ہو گا۔