ڈویژن کی سیاست صوبائی صورت حال کی عکاس
فیصل آباد ۔۔ احمد کمال نظامی
لاہور میں اپوزیشن جماعتوں کے جلسے کو رونق بخشنے کیلئے صوبے کے مختلف حصوں سے سیاسی کارکنوں کی طرح فیصل آباد سے بھی بڑی تعداد میں قافلے روانہ ہوئے ۔ کئی ماہ کے وقفے کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں اس وقت تیزی آئی ہے جب سینٹ کے الیکشن میں اب دو ماہ باقی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرح اب (ق) لیگ نے بھی اپنے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کیلئے اپنی جماعت کے رہنمائوں سے کہا ہے کہ وہ 17جنوری کو مال روڈ لاہور کے دھرنا میں بھر پور شرکت کیلئے پہنچیں۔ ‘اس وقت جبکہ میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ڈاکٹر طاہر القادری کا کنٹینر مال روڈ پر پہنچ چکا ہے اور پوری مال روڈ اور اس سے ملحقہ سڑکوں پر شہریوں کو آمد و رفت میں گزشتہ دو روز سے شدید دشواریوں کا سامنا ہے ‘ مال روڈ اور اس سے ملحقہ مارکیٹیں ‘ دکانیں ‘کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند ہیں ‘ اگر اپوزیشن جماعتوں کا یہ احتجاجی جلسہ ایک روز کے بعد بھی بند ہو جائے تو صرف ایک دن کیلئے مال روڈ کے بند رہنے سے کروڑ وں روپے سے زائد کا نقصان ہو گا جبکہ کسی بڑے جلسہ کے انقعاد میں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری موجود ہوں تو بالعموم ایسا ہو نہیں سکتا کہ ان کا پاور شو ایک دن میں اختتام پذیر ہو جائے ۔ کیونکہ ان کے دھرنے بھی فن خطابت کا نمونہ ہوتے ہیں۔
بظاہر فیصل آباد ڈویژن کی سیاسی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے سے لگتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب سے بہت کم پذیرائی ملے گی اور مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کی قیادت سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ہاتھوں سے نکل بھی جائے تو اس کے باوجود پنجاب کے انتخابی معرکوں میں وہی آگے ہو گی اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اس کے کانٹے دار انتخابی دنگل ہو ں گے ۔ عام انتخابات کا معرکہ خواہ کچھ بھی ہواس مرتبہ کینڈا سے واپسی کے بعد علامہ طاہر القادری پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں ۔ آصف زرداری نے بھی سانحہ ماڈل ٹائون کے شہیدوں کیلئے قصاص تحریک کو ادارہ منہاج القرآن سے مال روڈ تک لانے کیلئے دو مرتبہ ادارہ منہاج القرآن میں ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ بنفس نفیس ملاقات کی ہے۔ دونوں کے درمیان جلسے کی مکمل حکمت عملی پر بھر پور تبادلہ خیال کیا گیا ہے ‘ ڈاکٹر طاہر القادری اپنے صاحبزادوں سمیت سابق صدر مملکت کے عشائیے پر پہنچے اور اس طرح انہوں نے اپنے بیٹوں کو سابق صدر سے متعارف کرا دیا ہے تاکہ وہ بھی مستقبل میں پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت سے فیض یاب ہو تے رہیں۔
دوسری طرف سیاسی حلقوں کا یہ خیال ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری یہ چاہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات کیلئے مسلم لیگ (ن) میدان میں نہ ہو اور کسی نہ کسی طرح ملک میں کوئی ایسی صورت حال پیدا کر دیں کہ پیپلز پارٹی کا مقابلہ تنہا تحریک انصاف سے ہو کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) آئندہ انتخابات سے پہلے کسی طرح سیاسی منظر سے ہٹ جائے تو مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز پاکستان تحریک انصاف کے بجائے پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے نکلیں گے ۔ جس طرح سابق صدر زرداری نے کہا ہے کہ وہ میاں محمد شہباز شریف کو گھر بھیجے بغیر پیچھے نہیں ہٹیں گے اس سے تو یہی بات زور پکڑتی ہے کہ 17جنوری کا مال روڈ کا جلسہ پنجاب حکومت کو گرانے کی کوشش ہے۔ جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے سانحہ ماڈل ٹائون کی لاشوں پر سیاست کرنے کو ترقیاتی کاموں ‘قومی اقتصادیات اور تعلیمی اداروں کی بندش کے ذریعے نئی نسل کے تدریسی عمل کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ دھرنادینے اور آئے روز احتجاج کرنے سے قوم نہیں بنتی‘ یہ سب بہت حد تک درست ہے لیکن اس سے بھی زیادہ فکر انگیز بات یہ ہے کہ اب جبکہ ملک میں الیکشن کا سال شروع ہو چکا ہے اور تین چار ماہ کے بعد موجودہ حکومت پانا دورانیہ ختم کرنے والی ہے ‘ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کینڈا سے سانحہ ماڈل ٹائون کی لاشوں پر سیاست کرنے کیوں آئے ہیں ؟ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ روز یہ سوال اٹھایا ہے کہ قوم اس بات کا خود ادراک کرے کہ انہیں کس نے اس وقت ملک میں واپس بلایا ہے اور وہ کون ہے جس نے پس پردہ ہاتھ سے بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کا کھیل کھیلا ہے ‘ پانچ سو ووٹ لینے والے کو کس طرح وزیرعلی بنا دیا گیا ‘ گھنائونا مذاق ہوا ‘ بلوچستان میں ہونے والی سازش جلد بے نقاب کرونگا ‘ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بلوچستان حکومت کی تبدیلی سے پہلے کوئٹہ میں جا کر متعدد ارکان بلوچستان اسمبلی کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں ان کی طرف سے ثناء اﷲ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ لانے کی جو کوششیں کی تھیں ‘ وزیراعظم کے مطابق ان ارکان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان پر بعض ان دیکھی طاقتوں کا دبائو ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری بار بار نہایت پر مسرت لہجے میں کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا تو بلوچستان اسمبلی میں کوئی ایک بھی رکن نہیں ہے ‘ پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اس میں پیپلز پارٹی کا ہاتھ کار فرما ہے ‘ ساتھ ہی نہایت یقین آمیز لہجے میں یہ نوید بھی سنا چکے ہیں کہ الیکشن2018ء کے بعد ساری بلوچستان اسمبلی پیپلز پارٹی کی ہو گی۔
بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان تو یونہی انگلی اٹھانے والوں کی طرف دیکھتا رہا ہے جبکہ لگتا ہے کہ سابق صدر زرداری نے جن کو اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی‘ ان کو اپنے امپائر بنا لیا ہے ‘ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے 21ارکان ہیں جن میں سے19نے عبدالقدوس بزنجو پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور حکمران جماعت کے ان ارکان پر کس نے ہاتھ صاف کیا ہے ‘ یقینا عبدالقدوس بزنجو میں سیاسی جوڑ توڑ کی ایسی کوئی صلاحیت نہیں تھی ‘ ثناء اﷲ زہری کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ان 19ارکان کے بجائے بلوچستان اسمبلی میں 4ارکان رکھنے والی مسلم لیگ (ق) کے رکن کو وزارت اعلی سے کیوں نوازا گیا ۔بلا شبہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ روز ڈاکٹر طاہر القادری کی کینڈا سے عین انتخابات سے چند ماہ پہلے پاکستان آمد اور بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کے پیچھے کسی سازش کا اشارہ دیا ہے اور شاید بالکل درست اشارہ دیا ہے ۔