منیرنیازی ادب میں جگمگاتا ہوا ستارہ
فہمیدہ کوثر
چھ رنگین دروازوں کا شاعر، طلمسات، روشنی‘ خوشبو‘ہجرکا خوف‘ کائناتی سچائیاں‘ جہاںجابجا نظرآتی ہیں
منیر نیازی نے شاعری کو بام عروج پر پہنچانے والوں کے لئے وہ یادگار نقوش چھوڑے ہیں جن پر چل کر شاعری کے حوالے سے کئی جہتیں اور زاویئے متعین کئے جاسکتے ہیں۔ منیرنیازی ماضی کے شاعرتھے ، امیجری کے شاعرتھے یا اس فکر کے شاعر تھے جو ان کی غزلوں میں تنہائی‘ زرد شاموں اور تیز ہوا اور تنہا پھول کی صورت میں نظرآتی ہے۔ درحقیقت وہ چھ رنگین دروازوں کے شاعرتھے، طلمسات، روشنی‘ خوشبو‘ہجرکا خوف‘ کائناتی سچائیاں‘ جہاںجابجا پھیلی نظرآتی ہیں ۔سہیل احمد خان نے منیرنیازی کی شاعری کو ڈرے اور سہمے لوگوں کے لئے خوشی کی نوید کا سندیسہ دیا۔ منیرنیازی کو سب نے اپنے اپنے طریقے سے دریافت کیا ہے۔ اشفاق احمد نے منیرنیازی کو سچا اور خالص شاعر قرار دیا ہے جواندر کی دنیا سے روشنی باہرکی دنیا میں منتقل کرتا ہے اور یہ روشنی ان چھ دروازوں سے منعکس ہوکے آتی ہے جس کا ذکرمنیرنیازی نے اپنی شاعری کے مجموعے چھ رنگین دروازے میں کہا ہے ۔ راقمہ کی ملاقات منیرنیازی سے سیکرٹری فوڈ احسن راجہ کی کتاب کی تقریب رونمائی میں ہوئی،یہ غالباًدس سال پہلے کی بات ہے لیکن منیرنیازی کی شخصیت کی چھاپ میرے ذہن کے گوشوں میں موجود رہ رہ گئی۔
کون سے شہرسے تعلق ہے؟ ان کے سوال پر میں نے جواب دے دیا۔ بہاولپور کچھ دیر وہ خلاؤں میں گھورتے رہے پھربولے۔ ایک سے شہرایک سے لوگ‘ ایک سی خوشیاں اور ایک سے غم۔ منیرنیازی کی باتوں میں ان کے مشاہدے کا نچوڑتھا۔ وہ بولتے رہے اور زندگی کے مفاہم میرے سامنے کھلتے چلے گئے ۔جب سوال کیا گیا کہ آپ نے کن چھ رنگین دروازوں کا ذکرکیا ہے کہ ہرکوئی ان دروازوں میں داخل ہوکر ان طلسم ہوشربا منظرکو اپنے دل ودماغ میں مقید کرنا چاہتا ہے تو وہ بولے تم ایک دروازے سے جاؤ توسارا خوشبو کا سفرہوگا دوسرے درروازے سے زندگی کی حقیقتیں تیسرے دروازے سے جمود سے تحریک کی طرف سفرہوگا۔ خوف اور ڈرد کے سائے نظرآئیں گے۔ درحقیقت یہ دروازے ان کی ذات کے دروازے ہیں جس سے باہرکی روشنی چھن کراندرآ تی جاتی ہے اور اس روشنی میں ہرچیز واضح اور صاف ہوتی چلی جاتی ہے۔ سہیل احمد نے داستانوں کی علامتی کائنات لکھی منیرنیازی نے اس کائنات کی سچائیاں سب پرواہ کردیں پھرچاہے اجڑی بستیاں ہوں‘ سنسان شہروں کی ممٹیوں پر دھوپ میں بیٹھی چیلیں ہوں، اداس صحبیں ہوں‘ ملگجی شامیں ہوں یا ریل کی سیٹیاں باطن کے سفرمیں مددگار ہوتی ہیں۔ ان تمام واردات میں وہ خوشبو، رنگ اور تتلیوں کو تلاش کرتے ہیں۔ ان کا ایک شعری مجموعہ جنگل میں دھنک ـ،اسی بات کا عکاس ہے بچھڑ جانے کا احساس ان میں اس شدت سے ہے کہ وہ بے تبائیوں اور کچھ کھونے اور پانے کے احساس میںگھرے رہتے ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ 1960میں منظرعام پر آیا لیکن عام قاری کو مانوس ہونے میں وقت لگا۔ بعد میں آنے والے شعری مجموعوں تیزہوا اور تنہا پھول‘ دشمنوں کے درمیان شام‘ اس بے وفا کا شہر‘چھ رنگین دروازے ماہ منیراور پنجابی محموعے چار چپ چیزاں‘ سفردی رات‘ رستہ دسن والے تارے وہ استعارے ہیں جو زندگی کی مسافت کے دوران جگمگاتے رہتے ہیں اور بعد میں آنے والے شاعروں کے لئے مقام اور منزل کا تعین کرتے ہیں ان کے اشعار انسانی زندگی کے نشیب وفراز‘ ذات کا سفراور باطن تک پہنچنے والے دکھ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
؎ جی چاہندا اے مرن توپہلاں
ایسا نگر میں ویکھاں
جس دے لوکی اک دوجے نال
نفرت کدے نہ کردے ہون
جس دے لوکی زردے پچھے
سیاں وانگ نہ لڑے ہون
جس دے لوکی مرن تو پہلاں
روز روز نہ کردے ہون
فہمیدہ کوثر
گورنمنٹ کالج برائے خواتین لاہور