چاندی کی تلوار اور مجاہد پاکستان کا اعزاز
جی آر ا عوانپاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے رہبر صحافت مجید نظامی کو طالب علمی کے زمانے میں تحریک پاکستان کے حوالے سے شان دار کارکردگی اور خدمات کے انعام میں چاندی کی اعزازی تلوار اور مجاہد پاکستان کا خطاب دیا، یہ تلوار اور خطاب اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی گراﺅنڈ میں ہونے والی ایک تقریب میں نظامی صاحب کو عنائت کیا گیا۔ تلوار اس سلوگن کا ا استعارہ تھی جو پہلے روز سے تا دم تحریر نوائے وقت کی پیشانی کا جھومر بنا رہا ہے ،یعنی جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد ہے یہ سلوگن حدیث رسول اکرم ہے۔
پاکستان کے پہلے شہید وزیراعظم لیاقت علی خان نے مجید نظامی کو مجاہد پاکستان اور نقرئی تلوار دیتے وقت یہ نصیحت آگیں پیغام بھی دیا تھا کہ اپنے قلم کو ہمیشہ تلوار کی طرح تیز دھار رکھنا اور اندرون اور بیرون ملک پاکستان کے دشمنوں کا سر اپنے تلوار نما قلم سے قلم کرتے رہنا۔ یہ پیغام نوائے وقت کے مدبر مدیر نے مرتے دم تک حرز جاں بنائے رکھا۔ نوائے وقت کی تحریروں اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی تقاریب میں کی گئی تقریروں میں مجاہد پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی اپنے قلم و زبان سے پاکستان کے دشمنوں کی قبیح سوچوں اور ارادوں کو لیاقت علی خان کی تلوار کے علامتی وار سے فناکے گھاٹ اتارتے رہے۔
شہید ملت لیاقت علی خان جیسے زیرک وزیراعظم اور دوربین انسان کی دور اندیش نگاہیں مستقبل کے افق پر دیکھ رہی تھیں کہ پاکستان کے تحفظ کے لئے مجید نظامی جیسے سپوت ہی ملک کے لئے ایک اثاثہ ثابت ہوںگے۔ یہی نکتہ فکر تھا جسے پیش نظر رکھ کر سابق وزیراعظم کی جوہر شناس نظروں نے امام صحافت مجید نظامی کو تلوار اور مجاہد کا خطاب دیا۔ واضح رہے مجاہد اور تلوار کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
مجید نظامی نے اپنی بھرپور عملی زندگی میں بڑے بڑے آمر حکمرانوں اور آمر نما جمہوری تخت نشینوں کے ساتھ جب بھی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کی انہیں ہمیشہ اس بات کا احساس رہا کہ لیاقت علی خان کی تلوار ان کے ہاتھ میں ہے اور مجاہد پاکستان کا اعزاز ان کے سینے پر آویزاں ہے۔
مجید نظامی آج ظاہری طور پر ہم میں موجود نہیں ارم نشیں اور جنت مکیں ہو چکے ہیں لیکن نوائے وقت کی پالیسیوں ، تحریروں اور نکتہ نظر میں آج بھی لیاقت علی خان کی دی ہوئی تلوار اور مجاہد پاکستان کے خطاب موجودگی نظر آتی ہے۔