ملاقات کروانے میں فرشتے متحرک تھے یا کوئی اور ؟
شہزاد چغتائی
ایم کیو ایم اورپاک سرزمین پارٹی کے درمیان ’’طلاق‘‘ کے بعد ’’حلالہ‘‘ کیلئے کوششیں شروع ہوگئیں۔ اس سارے تنازعہ میں پاک سرزمین پارٹی کے رہنما مصطفی کمال سیاسی طورپرتنہا ہوگئے لیکن سب جانتے ہیں کہ آخر میں مصطفی کمال سرخرو ہوں گے۔پہلے دن مصطفی کمال ڈرائیونگ سیٹ پر تھے دوسرے دن فاروق ستار ڈرائیونگ سیٹ پر آگئے۔ مصطفی کمال نے ایک ہی دن میں سب کچھ حاصل کرکے کھودیا۔دونوں جماعتوں کا اتحاد 24گھنٹے میں ختم ہوگیا جس کے ساتھ ڈاکٹر فاروق ستار ایک طاقتور سربراہ کی حیثیت میں سامنے آئے لیکن پارٹی کے اندر کمزور ہوگئے۔ پارٹی نے ان کے پرکاٹنے کیلئے آئین میں ترامیم کا فیصلہ کرلیا اس سے قبل فاروق ستار کو بے پناہ اختیارات حاصل تھے۔ وہ سیاہ وسفید کے مالک تھے ان اختیارات کے تحت انہوں نے پی ایس پی سے ہاتھ ملانے کی کوششیں کی جس کو پارٹی نے مسترد کردیا۔ دونوں جماعتوں کا اتحاد ختم کرنے میں مرکزی کردار عامر خان کا تھا۔سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ عامرخان کی واپسی کے بعد فضا بدل گئی ہے۔سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاک سرزمین پارٹی اورایم کیو ایم کے درمیان دوریاں پیدا ہونے کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں ۔ لیکن فاروق ستار کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصطفی کمال کچھ زیادہ جذباتی ہوگئے تھے۔ وہ جوش خطابت کامظاہرہ نہ کرتے اورپریس کانفرنس سیاسی اتحاد کے اعلان تک محدود رہتی تو مصطفی کمال چھا جاتے اور ان میں اتنی صلاحیت ہے کہ آنے والے دنوں میں ڈاکٹر فاروق ستار پس منظر میں چلے جاتے اورممکن ہے کہ مصطفی کمال ایم کیو ایم کو ٹیک اوور کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ ایم کیوا یم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کے یوٹرن کے بعد ملک کی پاپولر سیاسی جماعتوں نے سارا وزن ان کے پلڑے میں ڈال دیا اورپشت پر کھڑی ہوگئیں وفاقی وزراء سعد رفیق اور احسن اقبال نے ایک سے زائد بار فون کرکے ڈاکٹرفاروق ستار کی پشت تھپکی جبکہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر سابق وفاقی وزیر ڈاکٹرعاصم حسین نے ڈاکٹر فاروق ستار سے ملاقات کی ۔ ڈاکٹر عاصم حسین نے متحدہ کے قانون سازوں کو پیپلز پارٹی میں محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے کی پیشکش کی اور جب بات نہیں بنی تو فریال تالپور ڈاکٹر عاصم اورفاروق ستار ملاقات پر برس پڑیں اورڈاکٹر عاصم کوشوکاز نوٹس جاری کرنے کا اعلان کردیا حالانکہ ڈاکٹر عاصم سابق صدر کی اجازت کے بغیر ڈاکٹر فاروق ستار سے ملنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے 23منتخب نمائندوں کو ساتھ ملانے کی کوششیں کی تھیں تاکہ سینیٹ میں اکثریت حاصل کی جائے لیکن سابق صدر آصف علی زرداری یہ بھول گئے کہ پی ایس پی اورایم کیوا یم کا اتحاد درحقیقت پیپلز پارٹی کے خلاف ہے تاکہ ایم کیوا یم پی ایس پی کے ذریعہ کراچی میں اوراندرون سندھ پیرپگارا کے ذریعہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکاجائے لیکن یہ راز قبل از وقت فاش ہوگیا۔جس سے پیپلز پارٹی کو فائدہ ہوا۔ لیکن آنے والے دنوں میں نقصان ہوگا کیونکہ شطرنج کی بساط پر سیاسی سائنسدان آصف علی زرداری کو مات پر مات ہورہی ہے اورعقاب ان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر پائوں تلے زمین کھینچ رہے ہیں۔فاروق ستار نے کہا کہ انجینئرڈ سیاست نہیں چلے گی انہوں نے زبان کھولنے کی جانب اشارہ کیا۔ گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا کہ فاروق ستار نے کہا تھا کہ ان پر دبائو ہے ایم کیوایم اور پی ایس پی کا اتحاد ختم ہونے کے بعد ان کو ملانے والوں نے نئے آپشن پر غور شروع کردیا ہے جوکہ ایم کیو ایم پر پابندی کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ ایم کیو ایم پابندی سے بچناچاہتی ہے ۔ ایک خیال یہ ہے کہ جیت مصطفی کمال کی ہوگی۔ بدھ کو مصطفی کمال نے میدان مار لیا تھا لیکن زبان کی تیزی طراری نے میزالٹ دی۔ ادھر الطاف حسین سے نجات حاصل کرنے والے بہت عجلت میں ہیں۔ جس کے باعث معاملات بگڑ گئے وہ بہت زیادہ غلطیاں کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایم کیوا یم پاکستان جیسی کمزور اورناتواں جماعت تن کرکھڑی ہوگئی۔ فاروق ستار نے پاک سرزمین پارٹی سے اتحاد کا فیصلہ پابندی کی اطلاعات پر کیا تھا لیکن وہ اس اتحاد کو باوقار انداز میں آگے بڑھانے کے خواہاں تھے لیکن مصطفی کمال کے جذباتی پن کی وجہ سے معاملہ بگڑ گیا۔ ایم کیوا یم پاکستان کے رہنما بھی اتحاد نما انضمام سے خوش نہیں تھے ۔ مصطفی کمال پوری ایم کیو ایم کو راتوں رات ٹیک اوور کرناچاہتے تھے پریس کانفرنس کے دوران ہی دونوں جماعتوں کے درمیان نئی پارٹی کی قیادت پر لڑائی شروع ہوگئی۔ دونوں جماعتوں نے خود کو لڑکے والا کہنا شروع کردیا۔ ایم کیو ایم زیادہ حصہ چاہتی تھی اس کی خواہش تھی قیادت اس کوملے۔ مصطفی کمال کے اس اعلان سے بھی گڑ بڑ ہوگئی کہ اب ایم کیوا یم نہیں رہے گی جس کے بعد ایک جانب مصطفی کمال کے خلاف بغاوت ہوگئی بلکہ عامر خان سمیت سب نے کہا ایم کیوایم کے نام اور پتنگ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔رابطہ کمیٹی نے یہ فیصلہ فاروق ستار کی غیرموجودگی میں کیا کہ ایم کیو ایم اپنے نام اورپتنگ کے انتخابی نشان سے دستبردار نہیں ہوگی اس کے بعد فاروق ستار سے کہا گیا کہ وہ اس کی توثیق کا اعلان کریں جس کے بعد فاروق ستار نے اپنی زندگی کا ماسٹر اسٹروک کھیلا اورسیاست کے پیمانے بدل گئے۔ مصطفی کمال منہ تکتے رہ گئے۔ جو فرنٹ فٹ پر تھے وہ بیک فٹ پر چلے گئے۔سیاسی حلقوں میںیہ بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ کیا سیاسی جماعتوں نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ کلب بنالیا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کب تک اس کلب کا حصہ رہے گی کیونکہ وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی رہی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار8ماہ تک مصطفی کمال سے خفیہ مذاکرات کرتے رہے اورکسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔تنائو اوردبائو کے ماحول میں ڈاکٹر فاروق ستار نے الگ صوبے کا شوشہ چھوڑ ا پیپلز پارٹی کی نیندیں اڑ گئیں اورپیپلز پارٹی کے رہنما ایم کیو ایم اورفاروق ستار پر برس پڑے کہ انہوں نے کہاکہ سندھ تقسیم ہوا تو خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ فنکشنل مسلم لیگ کی پارلیمانی لیڈر نصرت سحر عباسی نے ڈاکٹر فاروق ستار کی خوب خبرلی۔صوبائی وزیر منظور وسان ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا اور شرجیل انعام بھی میدان میں آگئے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کے دوبارہ فعال ہونے کے بعد ایم کیوا یم پر پابندی کی افواہیں ایک بار پھر اڑنے لگیں۔یہ سوال تو ملین ڈالر کا ہے کہ کیا جمعرات کو ہونے وا لی ڈرامائی تبدیلی کی پشت پر’’ فرشتے‘‘ تھے یا یہ بھی ڈرامہ تھا۔ بلاول بھٹو نے کراچی کی صورتحال کو ڈرامہ بازی قرار دیا، لیکن بعض تجزیہ کاروں نے آصف علی زرداری اور نواز کا کھیل قرار دیا سیاسی حلقے اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ کیا خفیہ ہاتھ کمزور منصوبہ بندی کرسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ڈاکٹر فاروق ستار میں کہاں سے طاقت آگئی۔متحدہ اور پی ایس پی کا اتحاد دراصل پیپلز پارٹی کے خلاف ووٹوں کو اکٹھا کرنے کا پلان تھا جو کہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی رہنمائوں کی رگوں میں شامل پریس کانفرنس کرنے کے جنون کے باعث افسانہ بن گیا۔ ورنہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا انتخابی اتحاد ایک معمول کی خبر ہوتی ہے۔ ایک اعلامیہ جاری کرکے انتخابی اتحاد کا اعلان ہوسکتا تھا۔ اب فیصلہ ہوا کہ یہ اتحاد الیکشن میں بنے گا کراچی میں مصطفی کمال اورفاروق ستار اور اندرون پیرپگارا پیپلز پارٹی کی یلغار کو روکیں گے۔ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے درمیان اشتراک دھرا کا دھرا رہ گیا سیاست میں ایک بار پھر زلزلہ آیا تو گزر گیا ستار کمال اتحاد ملاقات کو 22اگست 2016ء کے بعد کراچی میںرونما ہونے والی سب سے اہم تبدیلی قراردیا گیا تھا۔ نئے اتحاد کی تشکیل کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار خالی ہاتھ اورمصطفی کمال مالا مال تھے۔ اب مصطفی کمال خالی ہاتھ ہیں لیکن قسمت کی دیوی ان پر بدستور مہربان رہے گی۔سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ اب انضمام تو نہیں ہوگا لیکن دونوں جماعتوں کا اتحاد ضرور بنے گا۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اورشرجیل میمن نے کہا کہ ایم کیو ایم اورمصطفی کمال کے اتحاد سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا خورشید شاہ نے کراچی کی لیڈر شپ کو مظلوم قرار دیدیا۔ ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے کیلئے دو سابق صدور سرگرم ہوگئے ہیں ایک جانب سابق صدر آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے کیلئے رابطے اورملاقاتیں کی ہیں تو دوسری جانب آل پاکستان مسلم لیگ کے رہنمائوںنے اعلان کیا ہے کہ انضمام کے بعد ایم کیو ایم کی نئی تنظیم سابق صدر پرویز مشرف کے الائنس کا حصہ بن جائے گی۔ادھر سابق صدر آصف علی زرداری بھی ایم کیو ایم کے ساتھ اشتراک کیلئے پرامید ہیں اوروہ سابق گورنر عشرت کے ساتھ تعاون کے خواہاں ہیں ۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ روز ایم کیو ایم کی سینیٹر خوش بخت اور رکن قومی اسمبلی محمد علی راشد سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے کراچی کی سیاست میں اسپیس تلاش کرنے کی کوششیں کی تھیں اورنئے امکانات کاجائزہ لیا تھا۔