سقوطِ ڈھاکہ ُمقام ِعبرت یا نَدامت
سعید الزّماں صدیقی سابق چیف جسٹس
میں تنظیم تحریکِ محصُورین مشرقی پاکستان کے اراکین کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک انتہائی حساس انسانی اور اہم قومی مسئلے کو اپنے بے لوث جذبے اور انتھک کاوشوں سے آج تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ محصورین مشرقی پاکستان کا مسئلہ پاکستان کے مشرقی بازوکی علیحدگی اور سرزمینِ مشرقی پاکستان پر بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئی مملکت کے قیام کے ساتھ ہی وجود میں آیا۔ بنگلہ دیش میں اسوقت رہائش پذیر پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے اختیاری طور پر پاکستانی شہریت کو اسی طرح ترجیح دی جسطرح مغربی پاکستان میں رہنے والے مشرقی پاکستانیوں نے پاکستانی شہریت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔مگر افسوس مشرقی پاکستان میں پھنسے ہوئے وہ افراد جنہوں نے پاکستان کی سا لمیت اور اتحاد کے لئے ناقابل فراموش قربانیاں دیں اوران کو ان کے قانونی ، اخلاقی اور جائز حقِ شہریت سے آج تک محروم رکھا گیا اور انکی پاکستان واپسی کی راہ میں سیاسی مصلحتوں کی بنا پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔
سقوط ڈھاکہ ہماری قومی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب اور اس کے عوامل کے صحیح ادراک کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے پاکستان کی سیاسی اور دستوری تاریخ کا ایک مختصر سا جائزہ لیں۔ پاکستان کی سیاسی اور دستوری تاریخ کسی بھی لحاظ سے قابل فخر یا قابل رشک نہیں ہے۔ پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو وجود میں آنے کے ایک سال بعد ہی قیادت کے بحران سے دوچار ہوگیا جو ۷۰ سال گذرجانے کے بعد بھی آج تک جاری ہے۔ ۱۱ستمبر ۱۹۴۸ کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے نتیجے میں ملک اور قوم ایک ایسی قیادت سے محروم ہوگئی جو قومی وحدت کی علامت بھی اور جس پر پوری قوم کو اعتماد اور اعتبار تھا۔ قائداعظم کی وفات نوزائیدار یاست پاکستان کے لئے قومی سانحے سے کم نہ تھی مگر قائد کے معتمد خاص اور اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان جن کے کاندھوں پر قائد کی وفات کے بعد قیادت کی گراں قدرذمہ داری آن پڑی تھی اورانہوں نے انتہائی دیانت داری اور خوش اسلوبی سے اپنے فرائض منصبی کو نبھایا اور قومی یکجہتی کو برقرار رکھا ۔ مگر پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی نے جو قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی ملک کی سیا سی قیادت کے خلاف سازشوں میں سرگرم عمل تھی ایک گہری سازش کے تحت ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۱ کو راولپنڈی کے ایک جلسہ عام کے دوران قائدملت لیاقت علی خان کو قتل کروادیا اور اس طرح قومی سطح کی آخری بااعتبار قیادت بھی ہم سے جدا ہو گئی۔
قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین کو جن کا تعلق اس وقت کے مشرقی پاکستان سے تھا اور جن کا شمار قائد کے قابل اعتماد ساتھیوں میں ہوتا تھا ملک کا گورنرجنرل مقرر کیا گیا ۔لیاقت علی خان کی شہادت کے بعدوہ ملک کے وزیرِاعظم بنے اور ملک غلام محمد جن کا تعلق سول بیورو کریسی سے تھا پاکستان کا گورنر جنرل مقرر کیا گیا۔ اس وقت تک ملک کا انتظام گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ کے تحت ہی چل رہا تھا۔ جسے ملک کے دستورکی حیثیت حاصل تھی کیونکہ اس وقت تک پاکستان کی دستور ساز اسمبلی ملک کے لئے ایک نیا دستور بنانے میں ناکام رہی تھی۔ لہٰذا غلام محمد نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کی کچھ ہی عرصہ بعد اپریل ۱۹۵۳ میں خواجہ ناظم الدین کو وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ حالانکہ اس وقت خواجہ ناظم الدین کو اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی مگر ان کی جگہ سول بیوروکریسی کے ایک اور نمائندہ محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم نامزد کردیا ۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ کے تحت وہ آئینی وزیراعظم تھے ۔ اس وقت کے دستور کے مطابق گورنر جنرل وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند تھا وہ ان کو برطرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا۔ اس طرح ملک میں پہلی بار دستور سے انحراف کا راستہ اختیار کیا گیا کیونکہ اس سانحے نے قومی سیاست میں دستور سے انحراف کے ساتھ ساتھ نفاق کا بیج بھی بودیا جو آخرکار مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شکل میں پیش آیا۔ خواجہ ناظم الدین کی غیرآئینی برطرفی کے خلاف قومی سطح پر کسی خاص رد عمل کا مظاہرہ نہ ہونے کے باعث غلام محمد کے حوصلے بلند ہوگئے اور اس واقعہ کے کچھ ہی عرصے کے بعد ۲۴ اکتوبر ۱۹۵۴ کو اس نے دستور ساز اسمبلی کو بھی توڑ دیا۔ جس کے سربراہ مشرقی پاکستان سے ایک اور رہنما مولوی تمیزالدین خان تھے ۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ دوسرا بڑا دستوری انحراف تھا۔ منتخب جمہوری اداروں اور مقتدر شخصیات کے درمیان اس کشمکش کے نتیجے میںسندھ چیف کورٹ اور فیڈرل کورٹ کے فیصلے بھی جب گورنر جنرل کے اقدام کو جواز مہیا نہ کر سکے تو با لآخر غلام محمد نے فیڈرل کورٹ میں ریفرنس دائر کر کے نظریہ ضرورت کے تحت مرضی کا فیصلہ حاصل کر لیا۔ساتھ ہی فیڈرل کورٹ نے نئی دستور ساز اسمبلی کی تشکیل کی سفارش بھی کردی۔ فیڈرل کورٹ کے حکم کے نتیجے میں وجود میں آنے والی نئی دستور ساز اسمبلی نے ۱۹۵۶ کا متفقہ دستور قوم کے سامنے پیش کیا جو ۲۳مارچ ۱۹۵۶ کو ملک میں نافذ ہوگیا ۔
اس وقت جب مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ دراصل پیرٹی کے اصول کو تسلیم کرکے مشرقی پاکستان نے ایک طرح ملکی یکجہتی اور سا لمیت کے خاطر قربانی دی ۔مگر بدقسمتی سے ۱۹۵۶ کے متفقہ دستور کے نفاد کے باوجود ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہ ہوسکا۔ دو سال کے قلیل عرصہ میں کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں ۔ ملک میں غیر مستحکم سیاسی صورت حال کو بنیاد بنا کر اس وقت کے صدرا سکند ر مرزا نے ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۸ کو ۱۹۵۶ کے دستور کو ختم کرکے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کر دیا اور فوج کے کمانڈرانچیف ایوب خان کو ملک کا انتظام سونپ دیا۔ اس طرح ملک میں پہلی بار ایک غیر آئینی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔جبکہ بعد میں سپریم کورٹ نے بھی فوجی حکومتوں کے قیام کی قانونی راہ ہموار کر دی۔
ملک میں فرد واحدکا بنایا ہوا ۱۹۶۲ کا صدارتی طرز کا دستور نافذ تو کر دیا گیا، مگر یہ دستور بھی ۱۹۶۹ میں فوجی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان کے رخصت ہوتے ہی ختم ہوگیا ۔ فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے 1970ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلیوں کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کر کے اس کی علیحدگی کی تحریک کو ہوا دے دی۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں جن عوامل نے اہم کردار ادا کیا ان میں چھوٹے صوبوں میں شدید احساس محرومی ، مغربی پاکستان کے اکثریتی صوبے کے لوگوں کا مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ نارواسلوک، ملک میں جمہوری اداروں کا فقدان اور ملک کے سیاسی نظام میں باربار کی فوجی مداخلت نے وفاق کی سطح پر مشرقی پاکستانیوں میں مساوی حقوق کی پامالی کے احساس کوشدید تر بنا دیا تھا۔ وفاق میں شامل تمام اکائیوں میں انتظامی معاملات پر عدم برابری کا احساس رہا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں وہاں کے عوام میں ان احساسات کی عدم موجودگی نے بڑا کردار ادا کیا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے ہمارے حکمرانوں نے کوئی سبق نہیں لیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہم نے مغربی پاکستان کے باقی چار صوبوں کو پاکستان کا نام تو دے دیا اور اس کے نظم و نسق کو چلانے کے لئے ایک متفقہ دستور بھی بنا لیا مگر اس دستور پر عمل پیرا ہونے میں ہم بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ماضی کی طرح آج بھی جمہوری ادارے ملک میں ناپید ہیں اور سیاسی معاملات میں فوجی مداخلت بھی ماضی کی طرح جاری ہے۔