پیر بھائی داتا گنج بخش حضرت میراں حسین زنجانی ؒ
محمد سلیم خان قادری
ساڑھے دس صدیاں پہلے برصغیر کے لوگ جب گمراہی کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے تب ایک ولی کامل نے آ کر یہاں اسلام کی شمع روشن کی اور رشد و ہدایت کے لئے لاہور کو اپنا مرکز بنایا۔ اس ولی اللہ کا 1009واںتین روزہ سالانہ عرس جمعہ ، ہفتہ اور اتوار کے روز عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔ اس اعلیٰ صفت ہستی کا اسم گرامی حضرت سید میراں حسین زنجانیؒ ہے۔ آپ کی ولادت 26شعبان، 347ھ کو ایران کے مشہور تاریخی شہر زنجان میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام سید علی محمود اور دادا کا نام حضرت سید جعفر برقی ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام سیدہ مریم صغریٰ ہے یہ بھی سادات گھرانے سے تھیں اور بڑی عابدہ زاہدہ و پارسہ خاتون تھیں۔ آپ سات بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ آپ کا شجرہ نسب دس واسطوں سے حضرت سیدنا امام حسینؓ سے جا ملتا ہے۔
آپ کی ولادت با سعادت سے پہلے ہی سید علی محمودؓ کے پیر و مرشد نے خواب میں یہ بشارت دی کہ آپ کے ہاں بیٹے کی ولادت ہو گی جو مال و اسباب اور جاہ و جلال سے بے نیاز رہ کر دین اسلام کی خدمت و اشاعت کرے گا۔ تیرہ چودہ برس کی عمر میں ہی آپ اکثر اوقات زنجان کی آبادی سے باہر کھیتوں میں نکل جاتے اور مظاہر قدرت کامشاہدہ کرتے قرآنی آیات پڑھتے اور یاد الٰہی میں مصروف رہا کرتے۔ زمینوں پر کام کرتے آپ مختلف کاموں میں والد گرامی کی مدد کرتے دنیاوی کاموں اور اللہ تبارک تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتے۔ اسرار ربانی کا شوق دن بدن بڑھتا چلا گیا اور آپ کو مرشد کامل ضرورت پیش آئی۔
اس زمانے میں حضرت ابو لفضل محمد بن الحسن ختلی ؒ ظاہری ، باطنی علوم کے مشہور روحانی بزرگ تھے۔ جو محدث اور مفسر بھی تھے حضرت سید میراں حسینؒ نے پیر ختلیؒ کی روحانیت کا چرچا سنا تو آپ اپنے والد کے ساتھ سفر کر کے وادیٔ جن (ملک شام ) حاضر ہوگئے۔ پیر مرد حق شناس نے نگاہ کرم ڈالی کہ میراں حسین کی روحانی تشنگی عطاء کر کے آپ کو اسی وقت مرید بنا ڈالا۔ پھر آپ کے پیر و مرشد کی پیشنگوئی لفظ بہ لفظ پوری ہوئی اور آج دس صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی آپ کا چرچازبان زد عام اور روحانی فیض جاری و ساری ہے۔ آپ کے مرشد کامل نے آپ کو میراں کے خطاب سے نوازہ اور سند و خرقہ خلافت عطا ہونے کے بعد آپ کو حکم دیا کہ بیٹا جائو اب ہندوستان جا کر تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دو۔ والدین سے جب آپ نے اجازت طلب کی تو دین محمدی کے فروغ و اشاعت کی خاطر انہوں نے نہ صرف میراں حسینؒ بلکہ اپنے دو اور بیٹوں حضرت یعقوب زنجانی اور حضرت سید موسیٰ زنجانی اور انکے اہل و عیال کو بھی رخصت فرمایا آپ نے 385ھ کے آخر میں اس تبلیغی سفر کا آغاز کیا۔ کٹھن و دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے سبزوار، نیشا پور، ہرات ، ہزارہ، ، ہلمند، غزنی، کابل، جلال آباد ، پشاور ، مارگلہ اور گکھڑ میں روحانی فیض بانٹتے ہوئے لاہور پہنچنے ۔ خود شہر کے مشرقی حصے میں قیام فرمایا جوآپ کی نسبت سے باغ زنجان کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں پر آپ نے ایک جھونپڑی نما کمرہ بنایا، جس میں آپ رات بھر عبادت و ریاضات میں مشغول رہتے اور صبح ہوتے ہی شہر کے مغربی حصے میں واقع رنگ محل پانی والا تالاب کے آس پاس لوگوں میں رشد و ہدایت کا فریضہ سر انجام دیتے۔ سب سے پہلے آپ نے یہاں کی زبانی سیکھی۔ آپ روزانہ شہر کی گلی گلی کوچے کوچے میں جاتے اور لوگوں میں دین اسلام کی دعوت دیتے کیوں کہ ان دنوں شہر لاہور کے لوگوں کی اکثریت توہم پرستی کا شکار تھی۔ اسلئے لوگ سیخ پا ہو جاتے اور آپ کی مخالفت کرتے آپ کو برا بھلا کہتے اور ایذا رسانی کرتے ۔ عرصہ تین سال تک آپ نے اسی طرح تکالیف برداشت کرتے ہوئے دین اسلام کی تبلیغ فرمائی۔ پھر آپ کی دعوت حق سے متاثر ہو کر بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور جن لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا ان میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے جو اسلامی اقدار سے متاثر ہوئے اور اس طرح آپ کے بعد آنے والے بزرگان دین کیلئے راہ ہموار ہو گئی۔ تبلیغ دین کا جو چراغ آپ نے روشن کیا ، الحمد اللہ آج یہ خطہ دین کی دولت سے مالا مال ہے۔
حضرت میراں حسین زنجانی نے 44سال تک لاہور میں رہ کر دین متین کیلئے جدو جہد فرمائی۔ اور پوری زندگی خلوت میں گزاری آپ نے عمر بھر شادی نہ کی۔ جبکہ آپ کے بھائی حضرت یعقوب زنجانیؒ (شاہ صدر دیوان) کی اولاد تھی جس سے خاندان زنجانیہ کا نسبی سلسلہ آج بھی لاہور میں آپ کے مشن کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ حضرت سید موسیٰ زنجانی نے بھی اپنے تبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔ ان کے مزارات بھی میو ہسپتال روڈ جبکہ میراں حسین زنجانی کامزار اقدس شمالی لاہور کے مشہورو معروف علاقے چاہ میراں میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
آخری ایام میں آپ شدید بیمار ہو گئے تو آپ کے ایک عقیدت مند نو مسلم جس کا اسلامی نام عبداللہ تھا (رام چند) آپ کو اپنی رہائش گاہ محلہ دار شکوہ موجودہ پیروں دو موریہ پل لے گیا جہاں کچھ روز بعد آپ 84برس کی عمر میں وصال فرما گئے۔ آپ کا جنازہ وہاں سے مشرقی سمت لایا جا رہا تھا۔ کہ میں اسی وقت حضرت علی بن عثمان الہجوری المعروف داتا گنج بخشؒ لاہور شہر میں داخل ہوئے ۔آپ کا جنازہ جاتے دیکھا تو فرمایا کہ رکو اور بتائو یہ جنازہ کس کا ہے؟ شرکاء نے بتایا کہ یہ قطب القطاب حضرت سید میراں حسین زنجانی کا جنازہ ہے۔ چنانچہ آپ کو اپنے پیر حضرت ابو الفضل ختلیؒ کا حکم یاد آ گیا کہ اے علی ہندو ستان لاہور جاؤ، جبکہ میں نے عرض کی تھی کہ یا حضرت وہاں تو میرے پیر بھائی شاہ حسین موجود ہیں۔ اس پر مرشد کامل نے فرمایا تھا کہ اے علی تم ویسا کرو جیسا ہم کہتے ہیں۔ جب حضرت میراں حسینؒ کا جنازہ دیکھا تو اپنے پیر کی نگاہ دور اندیش یاد آ گئی۔ پھر آپ نے اپنے پیر بھائی کی نماز جنازہ پڑھائی اور باغ زنجان موجودہ چاہ میراں میں آپ کو اپنے دست مبارک سے لحد میں اتارا۔ پھر مغرب کی جانب چل دیئے، یہ روایت حضرت نظام الدین اولیاء (دہلوی) نے بھی اپنی کتاب میں تحریر فرمائی ہے۔