نادیدہ قوتوں کے دباؤمیں کورم دائمی مرض بن گیا
نواز رضا
پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا ہے ایک طرف مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے اور قبل از وقت انتخابات کرانے کے لئے ایک اور دھرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں دوسری طرف حکومت مردم شماری کے مطابق قومی اسمبلی کے انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی کے لئے سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی مخالفت کی وجہ سے اب تک آئینی ترمیم منظور نہیں کراسکی جب کہ قومی اسمبلی کے ایجنڈے سے فاٹا اصلاحات پر مبنی بل کے اچانک اخراج سے اپوزیشن نے اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ اپوزیشن ایوان میں آتی ہے شور شرابہ، ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی کے بعد باہر چلی جاتی ہے اس کے ساتھ ہی کورم کی نشاندہی کر کے ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دیتی حکومت کی اپنے ارکان پر گرفت کمزور ہو گئی ہے ان کے لئے پارلیمنٹ میں حاضری اولین ترجیح نہیں رہی کچھ ارکان ’نادیدہ قوتوں‘‘ کے دبائو میں ہیں اس لئے آئے روز حکومت کو کورم کے مسئلہ پر شرمند گی اٹھانی پڑتی ہے حکومت کو ’’کورم ‘‘ جیسی لا علاج بیماری لگ گئی ہے حکومت اپنی تمام تر کوشش کے باوجود قومی اسمبلی میں کورم پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔قومی اسمبلی کا50واں سیشن 7دسمبر کوشروع ہو گیا ہے یہ سیشن 19دسمبر 2017ء تک جاری رہے گا اب تک قومی اسمبلی کے اجلاس کی اہم بات یہ ہے اس نے امریکہ کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد منظور کی ہے قومی اسمبلی کے50سیشن کی دوسری نشست بھی کورم کی نذر ہو گئی سپیکر کوکورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس ملتوی کرنا پڑا کورم پورا نہ ہونے پر حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن حکومتی ارکان جن کی غیر حاضری کے باعث کورم ٹوٹتا ہے وہ شرمندہ ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنی اصلاح کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب جو مسلم لیگ (ن) کے چیف وہپ بھی ہیں حکومتی ارکان کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں لیکن حکومتی ارکان کی پارلیمنٹ کی کارروائی میں عدم دلچسپی کی وجہ سے اپوزیشن حکومت کے لئے پریشان کن صورت حال پیدا کررہی ہے قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے سے فاٹا اصلاحات بل خارج کرنے پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا اپوزیشن جماعتیں ’’فاٹا کو کیوں نکالا‘‘ اور ’’گو ایف سی آر گو‘‘ کے نعرے لگا کر اجلاس سے واک آئوٹ کر رہی ہے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکان سپیکر ڈائس کے سامنے دھرنا دے چکے ہیں۔ ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں نو نو اور شیم شیم کے نعرے لگائے اور پھر وہی ہوا جواپوزیشن کے ایجنڈے کی اولیں ترجیح ہے اپوزیشن پہلے اجلاس کا کورم توڑتی ہے پھر کورم کی نشاہدہی کر کے اجلاس ملتوی کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے ایسا دکھائی دیتا ہے اپوزیشن بھی ایوان کی کارروائی میں حصہ لینے میں سنجیدہ نہیں نظرآتی۔ ریاستوں و سرحدی امور وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے ایجنڈے میں تبدیلی کا سارا ملبہ وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب پر گرا دیا گیا ہے شنید ہے جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن جو موجودہ حکومت کے اہم اتحادی ہیں فاٹا اصلاحات پر مبنی بل کو موجودہ شکل میں منظور کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں لہٰذا انہوں نے بل کو ایجنڈے سے نکلوا دیا حکومت پوری اپوزیشن کونظر انداز کرسکتی ہے لیکن مولانا فضل الرحمنٰ جیسے ’’پولیٹیکل پارٹنر‘‘ کی ’’ناراضی‘‘ مول نہیں لے سکتی۔ شیخ آفتاب نے کہا ہے کہ بڑی سوچ بچار کے بعد ایجنڈا پر نظرثانی کی گئی ہے آئندہ دو تین روز میں یہ بل دوبارہ ایجنڈے پر آجائے گا۔ ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے فاٹا بل کے ایجنڈے سے اخراج کو تکنیکی غلطی قرار دے دیا لیکن اپوزیشن حکومت کا موقف تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اپوزیشن نے دوسرے دن بھی اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ جاری رکھا اس کے ساتھ ہی اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی کر کے اجلاس کی کارروائی نہیں چلنے دی اپوزیشن تیسرے روز بھی ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیواں گے‘‘ کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے اپوزیشن نے ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ کورم پورا نہ ہونے کے باعث ایوان کی کارروائی نہ چل سکی ایسا دکھائی دیتا ہے اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ میں زیادہ دلچسپی ہے۔ حکومتی ارکان بھی شرمندہ نہیں ہو رہے وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے ایوان کو بتایا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فاٹا اصلاحات بل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے تمام پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کو جمعہ کو ناشتہ پر مدعو کر لیا ہے لیکن تحریک انصاف نے وزیر اعظم کے ناشتے کی دعوت کو مسترد کر دیا ۔ متحدہ اپوزیشن کے اجلاس میں حکومت سے مذاکرات کے لئے سید خورشید شاہ کی سربراہی میںایک کمیٹی قائم کر دی ہے لیکن تاحال تحریک انصاف نے کمیٹی میں اپنے نمائندوں کے نام نہیں دئیے۔ شیخ آفتاب نے انکشاف نے کیا کہ ’’جب بل واپس لیا گیا تو اس پر احتجاج کے بعد ہم نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے اس معاملے پر تفصیل سے بات چیت کی وزیراعظم ترکی کے دورے پر ہیں اور وہ جمعرات کو ترکی سے واپس آئیں گے۔ جمعہ کی صبح ساڑھے نو بجے وزیراعظم نے اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کو ناشتہ پر مدعو کیا ہے تاکہ افہام و تفہیم کے بعد یہ بل ایوان سے منظور کرایا جائے لیکن اپوزیشن نے حکومت کے موقف کو تسلیم نہیں کیا۔ سید خورشید شاہ تو اس بات مصر تھے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کودورہ ترکی ملتوی کر دینا چاہیے وہ شاید اس بات سے آگاہ نہیں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی راولپنڈی میں اہم شخصیات سے ملاقاتیں ہوئی ہیں ان ملاقاتوں کے بارے میں کوئی خبر شائع نہیں ہوئی جب کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا عسکری قیادت سے مسلسل رابطہ رہتا ہے دونوں ترکی میں او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس میں شرکت کے بعد لندن چلے جائیں گے جہاں ان کی سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کو اب تک رابطوں کے حوالے سے پیش رفت کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ یہ ملا قات انتہائی اہمیت کی حامل ہوگی جس میں میاں نواز شریف کے آئندہ سیاسی لائحہ عمل کا تعین ہو گا ۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کے انتخابی حلقوں کی مردم شماری کے بارے میں از سر نو حد بندی بارے میں آئینی ترمیم کی منظوری میں حائل ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی پالیسی میں تضاد پایا جاتاہے ایک طرف قومی اسمبلی میں ترمیم منظور کرنے کے حق میں ووٹ دیا جب کہ سینیٹ میں مخالفت شروع کر دی ہے َ جس کے باعث سینیٹ آف پاکستان میں آئینی ترمیم رکی ہوئی ہے پیپلز پارٹی نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں اپنے مطالبات منوا لئے ہیں لیکن وہ اس معاملہ میں حکومت سے تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں آئینی ترمیم کی مخالفت کرنے کا جواز تلاش کرنے کے لئے پیپلز پارٹی ہر روز نئے مطابات لے کر آجاتی ہے اس لئے تاحال یہ آئینی ترمیم سینیٹ میں زیر التوا ہے ۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ آئینی ترمیم منظور نہ ہونے کی وجہ سے 2018ء میں مقررہ تاریخ پر انتخابات کا انعقاد غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے اس طرح پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ آصف علی زرداری ان قوتوں کے آلہ کار بن گئے جنہوں نے عام انتخابات میں نواز شریف کی جماعت کی کامیابی کا راستہ روکنے کے لئے طویل مدت کی عبوری حکومت جسے ٹیکنوکریٹس کی حکومت بھی کہا جاسکتا ہے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے اس طرح مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک تقسیم کرنے کے لئے ’’ سیاسی و غیر سیاسی‘‘ قوتیں سرگرم عمل ہو گئی ہیںاس سلسلے میں ان تمام دینی قوتوں جن میں بریلوی اور اہل حدیث مکتبہ فکر کی جما عتیں پیش پیش ہیں کی ازسر نو صف بندی شر وع کر دی گئی ہے جو نواز شریف مخالف تصور کی جاتی ہیں ۔ تحریک یا رسول اللہ نے 21روزہ دھرنے کے اختتام پر وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد کا استعفیٰ لینے کے بعد حکومت پنجاب پر حملہ کر دیاہے صوبائی وزیر قانون و انصاف رانا ثنا اللہ کا استعفیٰ مانگا جا رہا تھا پنجاب حکومت نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے اس سلسلے میں پیر حمید الدین سیالوی کی خدمات حاصل کی گئی ہے انہوں نے 5 1 ارکان اسمبلی کے استعفے اپنے پاس جمع کرانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن فی الحال 3ارکان صوبائی اسمبلی نے اپنے استعفے پنجاب اسمبلی کے سیکریٹریٹ کو بھجوائے ہیں سردست ان استعفوں سے وفا قی حکومت یا پنجاب حکومت گرنے کا کوئی خطرہ نہیں لیکن 3 مسلم لیگی ارکان کا ’’ختم نبوت ‘‘کے ایشوپر مستعفی ہوجانا مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کے لئے لمحہ فکریہ ہے سرگودھا اور گرد و نواح میں پیر سیالوی شریف کا حلقہ اثر ہے جس کے باعث 3 مسلم لیگی ارکان نے اپنے استعفے دئیے ہیں۔ رانا ثنا للہ کا کہناہے کہ پیر سیالوی شریف اپنے بیٹے کو فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے لئے پارٹی ٹکٹ دلوانے کے لئے ان کے استعفے کے درپے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت گرانے کے لئے ایک اور دھرنا دینے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے نواز شریف مخالف قوتوں کو مشترکہ طور پر دھرنا دینے کے لئے تیاریاں کی جا رہی ہیں ربورٹ سیاستدان ڈاکٹر طاہر القادری کے ہاں حاضری لگا رہے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان شدید نوعیت کی محاذ آرائی پائی جاتی ہے لیکن نوازشریف کی نامزد حکومت کو گرانے کے نکتہ پر دونوں جماعتیں ایک ’’صفحہ‘‘ پر ہیں دونوں جماعتوں کے قائدین ’’دھرنا سپیشلسٹ‘‘ ڈاکٹر طاہر القادری کے دربار پر حاضری دے چکے ہیں حتیٰ کہ مسلم لیگ(ق) کے قائدین چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے دھرنے میں اپنا حصہ ڈالنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو تیسرا دھرنا دینے کی تر غیب دی جا رہی ہے جبکہ خود ڈاکٹرطاہر القادری دھرنا میں شرکت کا عندیہ دے رہے ہیں ڈاکٹر طاہر القادری کا ’’کنٹینر‘‘ تیار ہے اب کی بار ڈاکٹر طاہر القادری اکیلے دھرنا دینے کے لئے تیار نہیں اب کی بار دو شہروں اسلام آباد اور لاہور میں دھرنا دیا جانے کا امکان ہے۔ دسمبر 2017ء کے اواخر یا جنوری 2018ء کے اوائل میں دھرنا دئیے جانے کی تجویز زیر غور ہے تاکہ مسلم لیگ(ن) سینیٹ کے انتخابات نہ کرا سکے اگر دھرنا کامیاب نہ ہوا تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا ’’پولیٹیکل ایڈونچر‘‘ کر سکتی ہیں لیکن انہیں مسلم لیگ (ن) کا سیاسی نقصان کرنے کے لئے اپنا نقصان بھی کرنا پڑے گا۔