وزیراعظم کااپنی مدت پوری کر نے کااوردباؤ قبول میں نہ کرنےکافیصلہ
فیصل آباد ۔۔ احمد کمال نظامی
پاکستان کے تیسرے اور پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد میں ہفتہ رفتہ سیاست کی بھرپور گہما گہمی رہی۔ اس کے ساتھ ہی صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ سیاست دانوں اور دینی حلقوں میں استعفیٰ کے معاملے پرزیربحث رہے ،گویا پاکستان میں رانا ثناء اللہ کا استعفیٰ ہی درپیش تمام مسائل کا حل ہے ۔ فیصل آباد کے تاریخی اقبال پارک میں سیال شریف کے سجادہ نشین خواجہ حمیدالدین سیالوی کی زیرصدارت ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا۔ جس میں سنی اتحاد کونسل سمیت اہلسنت کی جماعتوں کے رہنماؤں اور علماء کرام نے اظہار خیال کیا۔ ختم نبوت کانفرنس میں مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے دو ارکان قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار جٹ آف فیصل آباد اور غلام بی بی بھروانہ چنیوٹ جبکہ پنجاب اسمبلی کے تین ارکان نظام الدین سیالوی، مولانا رحمت اللہ اور محمد خان بلوچ نے حمید الدین سیالوی کو اپنے استعفے پیش کرنے کا اعلان کیا۔ قبل ازیں 15ارکان اسمبلی کے پیر حمیدالدین سیالوی کو استعفے پیش کرنے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ مگر ایم این اے حامد حمید، شیخ اکرم اور ایم پی اے وارث کلو، عبدالرزاق ڈھلوں وغیرہ اجتماع میں نہ آئے۔ پھر بھی سنی اتحاد کونسل کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اگلے مرحلے میں 15ارکان کے استعفے پیش کر دیئے جائیں گے۔ کانفرنس میں صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ خاں سے مستعفی ہونے بصورت دیگر وزیراعلیٰ پنجاب سے انہیں برطرف کرنے کا مطالبہ دوہرایا گیا ہے۔وگرنہ اگلا پڑاؤ وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنے اور جلسے کی صورت میں ہو گا ۔ پیر حمیدالدین سیالوی نے اپنے چند منٹ کے مختصر خطاب میں خود کو غیرسیاسی قرار دیا اور کہا کہ ان کی تمام تر جدوجہد پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے لئے ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ رانا ثناء اللہ خاں اپنے وعدے کے مطابق میرے پاس آ کر کلمہ پڑھنے کے بعد اپنے بیان کئے ہوئے خیالات پر توبہ کریں۔ جہاں تک پیر حمیدالدین سیالوی کا تعلق ہے ان کے مریدین کی زیادہ تر تعداد کا تعلق مسلم لیگ سے ہے اور الیکشن 2013ء کے دوران ان کے اپنے خانوادہ سے کچھ لوگ اسمبلی کے ارکان مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں۔ ختم نبوت کانفرنس میں پیر حمیدالدین سیالوی کی تقریر میں نہ تو کسی دھرنے اور نہ ہی احتجاج کی ان کی طرف سے بات کی گئی ہے البتہ سنی اتحاد کونسل اور اہلسنت جماعتوں کے بعض سیاسی دھڑوں کے اکابرین نے پرجوش تقریروں میں حکومت پر سخت تنقید کی ۔ جہاں تک مذہبی حلقوں کا خیال ہے ان کی رائے ہے کہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کو ازخود حمیدالدین سیالوی سے بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنا چاہیے اور اگر وفاقی وزیرقانون زاہد حامد کا استعفیٰ حاصل کیا جا سکتا ہے تو پھر رانا ثناـء اللہ خاں سے کیوں استعفیٰ طلب نہ کیا جائے۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کانفرنس میں شریک مشائخ اور آستانوں کے سجادہ نشینوں کا زیادہ تر تعلق حکومت وقت کے حامیوں اور مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والوں سے ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اب یہ حکومت کے خلاف جلسے کر رہے ہیں۔ در حقیقت ختم نبوت ہم سب کے ایمان کا حصہ ہے اور اس مسئلے کو اگر حل نہ کیا گیا تو اس سے آئندہ الیکشن 2018ء کے دوران مذہبی حلقوں کی طرف سے یہ حکومت کے لئے مشکلات کا پیش خیمہ ہو گا۔
دوسری جانب اس پروپیگنڈہ کے باوجود کہ حکومت آج نہیں تو کل گئی نا صرف حکومت قائم ہے بلکہ اپنی مدت پوری کرنے کا عزم ظاہر کر رہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) حکومت کو چار برسوں میں مسلسل جن داخلی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا رہا اس کے باوجود دہشت گردی پر کنٹرول، امن و امان کے قیام، بجلی اور گیس کے بحران کے خاتمہ کی کوششوںکا دنیا بھر میں اعتراف کیا گیا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جھنگ میں ایک پاور پلانٹ کا افتتاح کرتے ہوئے اپنے خطاب میں جن الفاظ میں اپنے مخالفین کو للکارا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان پرکسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں اور نہ ہی وہ دباؤ قبول کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خطاب میں ’’سیاست دان ہی شب خون مارنا چاہیں تو میں کیا کر سکتا ہوں‘‘ کے الفاظ ملک میں انتشار و افتراق کی سازشی سیاست کی واضح طور پر نشان دہی کرتے ہیں۔ تاہم وہ عوام کو بھی دعوت فکر دیتے ہیں ایسی کوئی بھی کوشش خواہ وہ کسی بھی جانب سے ہو، کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیںاور غیرجمہوری ادوار کے تباہ کن نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ جھنگ حویلی بہادر شاہ میں 1265میگاواٹ کے پنجاب پاور پلانٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ کر حکومت نے اپنے کردار سے واضح کر دیا ہے کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے میں حکومت کس قدر سنجیدہ ہے اس کا کریڈٹ حقیقی طور پر نااہل ہونے والے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو جاتا ہے کہ ان کی وضع کی ہوئی حکمت عملی کے نتیجہ میں اس میگا پاور پلانٹ کا قیام عمل میں آیا ہے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ صنعتی اداروں کو پہنچے گا۔ ہم اپنی کارکردگی کی بنیاد پر قوم کے سامنے کھڑے ہیں ہمیں کسی پر الزام لگانے اور گالی دینے کی ضرورت نہیں۔ حکومت آئینی مدت پوری کرے گی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف نے پیپلزپارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری کے الزامات کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا کہ کرپشن اور ایسے ہی دیگر الزامات عائد کرتے ہوئے آصف علی زرداری کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اور انہوں نے چھ ارب روپے کی کرپشن کا زرداری پر الزام عائد کرتے ہوئے نیب کے چیئرمین سے مطالبہ کیا کہ زرداری کے تمام کیسز ری اوپن کئے جائیں۔ انہوں نے زرداری کو علی بابا قرار دیتے ہوئے کہا کہ قوم کا خون چوسنے والے اس ڈاکو سے حساب لیں اگر عدالتیں نہیں لیتی تو عوام ضرور لیں گے۔ میاں شہبازشریف نے موجودہ حالات کے پیش نظر عمرانی معاہدہ کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا جمہوریت کے تسلسل میں رکاوٹ ملکی سالمیت کے لئے مہلک ثابت ہو سکتی ہے اور کسی بھی سیاست دان یا سیاسی جماعت کو کچھ حاصل نہیں ہو گا اور آخر میں جو بڑی شدت کے ساتھ مکافات عمل کی بات کی جا رہی ہے ہمارے سیاست دان ٹھنڈے ذہن سے غور کریں تو مکافات عمل کا شکار حکمران ہی نہیں اور لوگ بھی ہو سکتے ہیں اور سزا قوم کو بھگتنی پڑتی ہے۔
فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔ جس میں انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف اور رانا ثناء اللہ کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سلسلے میں طاہرالقادری نے اگر کوئی تحریک چلائی یا دھرنا دیا تو عمران خان اور اس کی جماعت بھرپور شرکت کرے گی۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے وہ قبل ازوقت انتخابات اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کی بڑی تعداد ان کے جلسوں میں شریک ہوتی ہے لیکن جلسوں میں عوام کی شرکت پاکستان میں انتخابات میں کامیابی کی ضمانت قرار نہیں دی جا سکتی۔ جہاں تک عمران خان کے اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ وہ میاں محمد شہبازشریف کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیں گے جبکہ اپنے پہلے دھرنا کے وقت جبکہ میا ںمحمد نوازشریف کے مستعفی ہونے کے نمایاں امکانات تھے لیکن میاں محمد نوازشریف کی کامیاب حکمت عملی سے نہ صرف ان کی حکومت بچ گئی بلکہ ایسی مستحکم ہوئی کہ ان کی نااہلی کے باوجود آج مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور یہ اپنی مدت پوری کرے گی۔