لومڑ اورمرغا
رانا علی حمزہ
ایک مرتبہ ایک مرغا ایک کھیت کے قریب لمبے سے درخت کی شاخ پر بیٹھا ہوا تھا۔ صبح کا سورج روشن تھا ہوا گرم تھی اور دیہاتی علاقے میں سکون تھا۔ مرغے کو بہت اچھا لگا اور اس نے گانا شروع کر دیا۔گیت تو خوبصورت نہ تھا لیکن آواز بہت بلند تھی۔ مرغے نے ایک لومڑ کو دیکھا جو جنگل کی طرف سے آ رہا تھا۔ لومڑ نے مرغے کی آواز سنی تو رک گیا اور منہ اُدھر کر کے اس موٹے مرغ کو دیکھا۔ لومڑ بھول کے مارے نڈھال تھا اور جتنی جلد ممکن ہو سکے ناشتہ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے سوچا کہ مرغا بہت عمدہ خوراک ہے اور اسے کھانا اچھا ثابت ہو گا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ لومڑ ایک چالاک مکار جانور ہے لیکن وہ درخت پر چڑھ نہیں سکتا۔ اس نے سوچا کہ کسی نہ کسی طرح چالاکی سے مرغے کو درخت سے نیچے اُتارنا ہو گا۔اس نے اپنا چہرہ اوپر کیا اور مرغے کو دیکھ کر مسکرایا ۔ ’’آپ کو دیکھ کر کتنا اچھا لگا‘‘ اس نے کہا ’’میں ایک دوست کو تلاش کر رہا ہوں۔ آپ نیچے کیوں نہیں آجاتے؟ ہم اچھی دوستانہ گفتگو کر سکتے ہیں۔‘‘اب مرغا اس کی چالاکی سے بے وقوف نہیں بن سکتا تھا۔ اسے بالکل معلوم تھا کہ لومڑ کیا چاہتا ہے۔اس نے نیچے آنے پر اتفاق نہ کیا۔اس کی بجائے اس نے کہا ’’مجھے معلوم ہے آپ مجھے نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ آپ مجھ سے صرف بات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن تب کیا ہو گا اگر بھوکا بھیڑیا ادھر آ نکلا؟ شیر؟ شاید وہ مجھے کھا جائیں۔‘‘ ’’میں تمہیں بہت ہی شاندار بات بتانا چاہتا ہوں‘‘ لومڑ نے کہا! مرغے نے نیچے دیکھا ’’وہ کیا بات ہے‘‘؟ اس نے پوچھا!
’’یہ ایک ولولہ انگیز خبر ہے! جانوروں کا ایک بڑا اجلاس ہوا تھا۔ یہ طے پایا گیا کہ تمام جانور اور تمام پرندے اب سے دوست ہوں گے۔ انہوں نے امن سے رہنے پر اتفاق کیا۔ چوہے بلیوں کے دوست بن گئے ہیں۔ پرندے لومڑوں کے دوست بن سکتے ہیں۔ مینڈک بگلوں کے دوست بن سکتے ہیں۔ اب ایک دوسرے کوخوراک کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا! ہمیشہ کے لیے امن قائم ہو گیا ہے۔ پس نیچے آجاؤ اور مجھ سے دوستی کرلو‘‘۔ ’’یہ تو شاندار خبر ہے! مرغے نے کہا اور پھر اس کی آنکھیں پھیل گیئں جب اُس نے دورجو کچھ دیکھا اسے خوب جوش آیا اور اس نے اپنی گردن کو آگے اتنا لمبا کرلیا جیسے کہ بہتر طور پر دیکھنا چاہتا ہو۔’’ وہ کیا ہے جو تم دیکھا رہے ہو؟‘‘ لومڑ نے پوچھا۔ ’’تمہیں کیا نظر آتا ہے؟اور دوست آرہے ہیں‘‘ کتنا مزہ آئے گا! یہ کتوں کا ایک بڑا جتھا ہے بہت تیزی سے بھاگ رہے ہیں۔ وہ کسی لمحے یہاں پہنچ جائیں گے۔ شاید ہم سب پارٹی کر سکیں‘‘! لومڑ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی کیونکہ اس نے مقدر کے اس طرح پلٹا کھانے کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا تھا۔ وہ یہاں سے سرپٹ بھاگا۔ ’’مدد!‘‘ ’’مجھے لازماً جانا ہے۔‘ لومڑ چلایا۔ ’’لومڑ مت جاؤ‘‘ مرغے نے کہا۔ ’’تم مجھے چھوڑ کر کیوں جا رہے ہو؟ کیا تم بھول گئے ہو کہ اب سے جانور دوست ہیں؟ کتے تم سے باتیں کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ لیکن شاید کتوں کو اس شاندار خبر کا علم نہ ہو اور لومڑ نے دور پہاڑیوں کے پہلو کی طرف دوڑنا جاری رکھا۔ ’’لومڑ واپس آجاؤ! آؤ میں تمہارے ساتھ دوستی کروں گا۔‘‘ مرغ نے کہا۔ ’’نہیں! کتے میرے ساتھ دوستی کرنا نہیں چاہتے‘ وہ تو میرے ٹکڑے کر دیں گے لومڑ چلایااور وہاں سے بھاگ نکلا۔