برآمد کنندگان ایک بار پھر سراپااحتجاج
احمد جمال نظامی
کراچی کے نامساعد حالات کے پیش نظرکم و بیش تین عشروں سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی منتقلی اور سرمایہ کاری کا سارا رجحان پنجاب کی جانب رہا ہے ۔ تاہم اس شعبہ میں روز نت نئے مسائل اور حکومتی عدم توجہی کے نتیجہ میں حکومتی سطح پر معیشت کو کنٹرول کرنے والے انڈیکیٹرز، جی ڈی پی، زرمبادلہ کے ذخائر، افراط زر وغیرہ بھی بری طرح متاثر ہیں۔ ہمارے ملک کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار ان دنوں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے باضابطہ چھٹی لے کر دیارغیر علاج معالجے میں مصروف ہیں جس کے باعث شعبہ ٹیکسٹائل کی بدحالی اور گرتی ہوئی برآمدات پر شدید احتجاج جاری ہے۔ اس دوران گیس کی بندش اور صنعتوں کو آر ایل این جی پرزبردستی منتقل کرنے کی صورت میںرہی سہی کسر بھی نکل گئی ہے۔ ان اقدامات پر ٹیکسٹائل کے مختلف حلقوں اور بالخصوص برآمدکنندگان کا شدید احتجاج سامنے آنے لگا ہے لیکن ہر سال کی طرح افسوس حکومت اس ضمن میں خاطرخواہ توجہ دیتے دکھائی نہیںدے رہی۔ لہٰذا یہ خدشہ برقرار ہے کہ آئندہ ٹیکسٹائل کی برآمدات مزید متاثر ہو سکتی ہیں اور کرسمس کے حوالے سے ٹیکسٹائل برآمدات کے جو مسائل ہر سال عالمی منڈیوں تک رسائی کی صورت میں سامنے آتے ہیں وہ اپنی جگہ موجود رہیں گے۔
اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری سے وابستہ مختلف حلقے پنجاب کی صنعتوں کیلئے سسٹم سے گیس کے کوٹے کو 33 فیصد سے کم کرکے 28 فیصدکرنے اور اب یکم دسمبر سے مکمل طور پر اس کی بندش کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس شعبے کی طرف سے برملا اس امر کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ سو فیصد مہنگی درآمدی آرایل این جی کے استعمال سے نہ صرف پنجاب کی صنعتوں کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا بلکہ ہم اندرون ملک ہی عدم مسابقت کا شکار ہو جائیں گے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان دنوں وطن عزیز میں برآمد ی شعبہ میںانتہائی گھبیر مسائل درپیش ہیں جن میں سرفہرست پیداواری لاگت میں اضافہ شامل ہے۔خاص طور پر برآمدات کیلئے تیار ہونے والی مصنوعات کی قیمتیں مسابقتی ممالک سے دو گنا بڑھ گئی ہیں۔ سسٹم گیس کی بجائے تقریباً 40 فیصدمہنگی آر ایل این جی کی فراہمی سے برآمدی صنعت پر بوجھ مزید بڑھے گا اور طویل عرصے بعد شروع ہونیوالی برآمدی گروتھ شدید متاثر ہوگی۔ صنعتی ضروریات کیلئے گیس جیسے بنیادی ایندھن کی قیمت کا دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو بنگلہ دیش میں صنعتی گیس کا ریٹ 3 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو، ویت نام میں 4.2 ڈالر اور بھارت میں 4.5 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے جبکہ پاکستان میں صنعتی مقاصد کیلئے سسٹم گیس کا ریٹ 7.6 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اور آر ایل این جی کا ریٹ لگ بھگ 11 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔ آر ایل این جی کی فراہمی پر پنجاب کی صنعتوں کو دیگر صوبوں کی نسبت تقریباً 40 فیصد زائد قیمت ادا کرنا ہوگی۔جبکہ 10 فیصد UFG اور 100 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو GIDC کی مد میں ادا کئے جا رہے ہیں ۔بنیادی ایندھن کی قیمت میں اتنے زیادہ فرق کے ساتھ دیگر ممالک سے مسابقت کیسے ممکن ہے۔ یہ بات ہمارے پالیسی سازوں کو سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین شائق جاویدکے مطابق سسٹم گیس کی بندش اور مہنگی آر ایل این جی کی فراہمی سے عالمی مارکیٹ میں عدم مسابقت کا شکارٹیکسٹائل کی برآمدی صنعت بری طرح متاثر ہوگی۔ پیداواری لاگت بڑھنے سے جہاں صنعتی عمل متاثر ہوگا وہیں برآمدی ترقی کی شرح میں بھی کمی آئے گی۔ پنجاب کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کوخطے کے مساوی نرخوں پر سسٹم گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ د یگر ممالک سے مسابقت ممکن ہو سکے۔
خطے کے دیگر ممالک کے مقابلہ میںہمارے ذرائع توانائی کی قیمت بلا شبہ کہیں زیادہ ہے جسکے سبب عالمی مارکیٹ میںہمیں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ ۔ اس بلند پیداواری لاگت سے جہاں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئی وہیں برآمدی ترقی بھی بے حد متاثر ہورہی ہے۔ ایک لمبے عرصے کے بعد برآمدی نمو میں مثبت ترقی آنا شروع ہوئی تھی مگر حالیہ فیصلہ سے برآمدی ترقی کا عمل متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ مہنگی آر ایل این جی کیساتھ برآمدات میں اضافہ ممکن نہیں۔ برآمدی حلقے گیس ایشو کے دیرپا حل کیلئے جامع اقدامات پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کر رہے ہیں ۔ ملک میں صنعتوں کے فروغ اور اقتصادی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ صنعتی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے ۔ گیس سمیت دیگر پیداواری عوامل کی مسابقتی قیمت پر فراہمی سے ٹیکسٹائل کی برآمدی صنعت کو فروغ ملے گا اور برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ ملک میں صنعتی عمل کو مزید فعال کرنے ، برآمدی نمو میں تیزی اور ملکی معیشت کے استحکام کیلئے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ٹیکسٹائل کے ایکسپورٹرز نے ایک مرتبہ پھر ٹیکسٹائل کی اہم صنعت کی ترقی اور ملک میں معاشی خوشحالی کیلئے صنعتوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی پر زور دیا ہے۔تاکہ عالمی مارکیٹ میں باآسانی مقابلہ کیا جا سکے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حالات میں جبکہ ہمارے ملک میں وزیرخزانہ موجود نہیں اور ٹیکسٹائل کی برآمدات ایک طویل عرصہ تک بحرانی کشمکش کا شکار ہونے کے بعد کسی حد تک بہتری کی طرف گامزن ہوئی ہیں وزیراعظم اور تمام ذمہ داران فوری طور پر اس صورت حال کا نوٹس لیں اور قدرتی گیس کی جگہ صنعتوں کومرحلہ وار اور مربوط حکمت عملی کے تحت آر ایل این جی پر منتقل کیا جائے جس کے لئے حکومت صنعت کاروں کو مناسب قرضہ جات اور ریونیو بھی فراہم کرے۔