ریگولیٹری ڈیوٹی کافیصلہ بغیر مشاورت کے کیاگیا
انٹر ویو : احسن صدیق
لاہور چیمبر آف کا مرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ملک طاہر جاوید آٹوپارٹس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ سال 2017-18ء کے لیے انہیں لاہور چیمبر کا صدر کا صدر منتخب کیا گیا۔ اس سے قبل وہ لاہور چیمبر کے سینئر نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اپنے دورہ جرمنی کے حوالے سے نوائے وقت کو انٹر ویو میں بتایاہے کہ جرمنی کی نامور کاروباری شخصیات سے ملاقاتوں کے دوران دونوں ممالک کے تاجروں کی سطح پر مشترکہ منصوبہ سازی پرتبادلہ خیال کیاگیاہے ۔ پاکستانی تاجروں کیلئے ضروری ہے کہ وہ بین الاقوامی تجارتی میلوں اور نمائشوں میں شرکت کریں جس سے انہیں تیزی سے تبدیل ہوتی تجارتی و معاشی صورتحال سے آگاہی ہوگی ۔ جرمن سرمایہ کاروں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ پاکستان میں توانائی ،لائیوسٹاک، ڈیری ، ٹیلی کمیونیکیشنز، آئل اینڈ گیس، فوڈ پراسیسنگ، کولڈ چین سسٹم، زرعی مشینری، ڈیری پراسیسنگ اور انجینئرنگ کے شعبوں میں سرمایہ کاری کریں۔ انہوں نے بتایا پاکستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری نا صرف دیگر علاقائی ممالک بلکہ وسطیٰ ایشیائی ریاستوں تک اپنی جگہ بناسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی ہائیڈل ذرائع کے ساتھ ونڈ اور سولر ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی وافر بجلی پیدا کررہا ہے ۔ جرمنی کے سرمایہ کاروں اگر پاکستان میں ان شعبو ںمیں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا۔ ریگولیٹری ڈیوٹی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل ایف بی آر نے سینکڑوں درآمدی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی اور حسب معمول اس سلسلے میں بھی تاجروں سے مشاورت نہیں کی گئی۔ ریگولیٹری ڈیوٹی ایک بہت بڑا بوجھ ہے اس کے علاوہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں سمگلنگ بھی بڑھے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ریگولیٹری ڈیوٹی کے سلسلے میں انہوں نے پارلیمنٹرینز قیصر احمد شیخ، سعید احمد خان منیس، ڈاکٹر شیزرا منصب علی خان، شیخ فیاض الدین، سید نوید قمر، ڈاکٹر نفیسہ شاہ، سید مصطفی محمود اور اسد عمر ، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار علام مرتضی جتوئی، وزیراعظم کے معاون برائے ریونیو ہارون اختر اور ممبر کسٹمز ایف بی آر زاہد کھوکھر سے ملاقات کر کے انہیں کاروباری برادری کی بے چینی سے آگاہ کیا۔ ملک طاہر جاوید نے بتایا کہ ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کا فیصلہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر یکطرفہ طور پر کیا گیاجس کی وجہ سے مینوفیکچرنگ اور برآمدی سیکٹرز بھی متاثر ہوئے کیونکہ کئی اہم خام مال بھی ریگولیٹری ڈیوٹی کی زد میں آگئے ہیںاور یہ فیصلہ صنعت ، تجارت اور معیشت کے وسیع تر مفاد میں نہیں ۔ لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ کاروباری برادری کو پہلے سے ہی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، ایسے میں ریگولیٹری ڈیوٹی جیسے اقدامات مزید مسائل پیدا کریں گے ۔ انہوں نے وفاقی وزیر، وزیراعظم کے معاون برائے ریونیو اور ممبر کسٹمز کو آگاہ کیا کہ صولی طور پر ریگولیٹری ڈیوٹی مقامی صنعت کو تحفظ دینے کے لیے عائد کی جاتی ہے مگر یہ ضروری خام مال اور اْن اشیاء پر بھی عائد کردی گئی جو یا تو ملک میں بنتے ہی نہیں یا پھر اتنی قلیل مقدار میں تیار ہوتے ہیں کہ مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ریگولیٹری ڈیوٹی مکمل طور پر واپس لیکر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا عمل شروع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اشیائے تعیش کی درآمد کی روک تھام ضروری ہے لیکن اس کی زد میں ضروری خام مال وغیرہ ہرگز نہیں آنے چاہئیں۔جو خام مال مختلف قسم کی صنعتوں اور کاسمیٹکس کی صنعت میں استعمال ہوتے ہیں، اس پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
انہوں نے کہا دنیامیں بلاواسطہ ٹیکسوں کی تعداد زیادہ اور بالواسطہ ٹیکسوں کی تعداد کم ہورہی ہے لیکن پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے جس کی وجہ سے موجودہ ٹیکس دہندگان پربوجھ مزید بڑھتا جارہا ہے۔ ودہولڈنگ ٹیکس نے تاجر برادری اور بینکنگ سیکٹر دونوں کو بْری طرح متاثر کیا ہے، تاجروں نے بینکاری کے نظام کو چھوڑ کر نقد لین دین، حوالہ ہنڈی کا سہارا لینا شروع کردیا ہے جس سے غیر دستاویزی معیشت کو فروغ مل رہا ہے جو قومی معیشت کو تباہ کردے گی۔ برآمدات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ کچھ سالوں کے دوران پاکستان کی برآمدات میں واضح کمی دیکھی گئی ہے باوجود اس کے کہ امن و امان کے حالات اور بجلی و گیس کی سپلائی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ ایکسپورٹس میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی منڈی میں اشیائے صرف کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔ اشیاء کا حجم اتنا ہی ہے لیکن قیمت کم ملنے کی وجہ سے ایکسپورٹ کی مالیت کم ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر پہلے جس چیز کے 5 ڈالر مل رہے تھے اب اس کے 3 ڈالر ملتے ہیں۔ برآمد کندگان کو ریفنڈ کلیمز نے بھی مالی مشکلات میں مبتلا کیا جس کے اثرات برآمدات پر مرتب ہوئے۔چین میں فی کس آمدن میں اضافے کی وجہ سے لیبرمہنگی ہو گئی ہے جبکہ پاکستان میں سستی اور کوالٹی لیبر موجود ہے جو کہ چین کی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ پاکستانی تاجر برادری کو چائیے کہ وہ چین کے سرمایہ کاروں کے ساتھ مضبوط روابط قائم کر کے انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کریں۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو چائیے کہ وہ بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان بلانے کی کوششوں میں چیمبرز آف کامرس کے ساتھ تعاون کرے تاکہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان آ کر تجارت اور سرمایہ کاری کے مزید مواقع تلاش کر سکیں۔