سردرد کیوں ہوتا ہے ؟
فرزانہ چودھری
نیورو فزیشن ڈاکٹر شاہد مختار نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کے بعد نیورولوجی میں سپیشلائزیشن کی۔ انہوں نے میو ہسپتال سے ٹریننگ حاصل کی اور ایف سی پی ایس کے بعدان کا تبادلہ جنرل ہسپتال لاہور ہو گیا۔ ان دنوں وہ جنرل ہسپتال میںکسلنٹنٹ نیورو فزیشن کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
نیورو فزیشن ڈاکٹر شاہد مختار نے بتایا ’’نیورو فزیشن کا کام ادویات سے دماغی بیماریوں کا علاج کرنا ہے۔ جس میں سر درد‘ مر گی‘ فالج‘ لقوا‘ کمر درد کے علاوہ بھی کئی بیماریاں شامل ہیں جن کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے۔ نیورو سرجنز بنیادی طور پر نیورو فزیشنز پر انحصار کرتے ہیں۔ حادثے میں دماغی چوٹ کے مریض کے سوا باقی تمام دماغی امراض کے مریض نیورو فزیشن کے پاس علاج کے آتے ہیں اور اگر مریض کو دماغی سرجری کی ضرورت ہو تو نیوروفزیشن ان کو نیورو سرجنز کے پاس سرجری کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ مثلاً اگر دماغ میں ٹیومر ہے تو ہم مریض کو نیورو سرجن کو ریفر کر دیتے ہیں۔
٭ ڈپریشن کا تعلق بھی دماغ سے ہے کیا ان مریضوں کا علاج بھی نیورو فزیشن کرسکتا ہے؟
ج:آج کل ٹینشن‘ ڈپریشن اور اینگزائٹی عام امراض ہیں۔ اور یہ امراض تو زیادہ تر سائیکاٹری کے شعبہ کے ہیں لیکن ان امراض کے کچھ مریض ہمارے پاس بھی آ جاتے ہیں۔ بنیادی چیز جس پر ہم فوکس نہیں کرتے وہ ہمارا لائف سٹائل اور خوراک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر خطے میں کچھ بیماریاں مخصوص رکھی ہیں جو وہاں کی عام بیماریاں کہلاتی ہیں۔ مثلاً ہمارے خطے کی بیماری شوگر اور بلڈ پریشر ہے۔ اگر یورپ امریکہ میں چلے جائیں وہاں پر عام ٹیومرز یعنی کینسر ہیں۔ پاکستان میں ٹیومرز اتنے عام نہیں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہاں کے آب و ہوا کا فرق ہے۔ بلڈ پریشر اور شوگر کی وجہ سے مرض کے دماغ کے خون کی سرکولیشن کم ہو نے سے فالج ہوتا ہے۔ دماغ کی نالیاں تنگ ہوجائیں تو فالج ہوتا ہے۔ اگر دل کی خون کی نالیاں تنگ ہو جائیں تو ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے۔ ہماری خوراک میں جنک فوڈ، برگر‘ پیزا‘ فرائیڈ فوڈ کا استعمال عام ہے مگر ورزش اورواک نہیں کرتے جس سے جسم میں کولیسٹرول‘ چکنائی‘ شوگر بڑھ جاتی ہے جو خون کی نالیوں کو تنگ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ اس سے ہارٹ اٹیک اور فالج ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سر درد لوگوں میں بہت عام ہے۔ہمارے ملک میں سب سے عام فالج کا مرض ہے جو سنجیدہ مسئلہ بھی ہے۔
٭ سر درد کی کیا وجوہات ہیں؟
ج: سر درد ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پریشانی اور ٹینشن سے کی وجہ سے سر درد ہر کسی کو بھی ہو سکتا ہے۔ کبھی آپ نے زیادہ کام کر لیا‘ زیادہ بحث کر لی تو سر درد ہو گیا۔ سر درد سے پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ یہ پریشانی والی بیماری نہیں ہے۔ سر درد ایک عارضہ ہے لیکن بہت آرام سے اس کا علاج ہو جاتاہے۔ دماغ کے اندر خون کی کچھ نسیں کھل جاتی ہیںاور خون کا بہائو بڑھنے سے پریشر بڑھ جاتا ہے توسردرد شروع ہوجاتا ہے۔ دوائیوں سے سردرد کنٹرول ہوجاتا ہے۔ سردرد کی دوائی بھی ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہیں کھانی چاہیے۔ ہمارے ہاں سردرد کو بیماری سمجھا نہیں جاتا۔ سردرد میں ڈسپرین کھانے سے کچھ لوگوں کو نقصان بھی ہو سکتا ہے۔مثلاً معدہ خراب ہوجاتا ہے اور اس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ سر درد کی ایک قسم درد شقیقہ ہے جو بدقسمتی سے جو مردوں کی نسبت خواتین میں بہت عام ہے۔ دنیا میں بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جو خواتین میں کم ہیں اور بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جو مردوں میں کم ہیں۔ مثلاً فالج کا مرض مردوں میں زیادہ اور خواتین میں کم ہوتا ہے۔ درد شقیقہ کا مرض 18‘ 19 سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے اور 40‘ 50 سال کی عمر تک چلتا ہے۔ آپ دوائی کھاتے رہیں آپ ٹھیک رہیں گے۔
٭ فالج سے خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟
ج: فالج سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی شوگر اور بلڈ پریشر کنٹرول رکھیں اور خوراک میں چکنائی کی مقدار کم لیں۔ فالج ہونے کے بعد جنگلی کبوتر کھانے یا اس کے خون سے مالش کرنے سے بالکل فرق نہیں پڑتا ہے۔ایک بار مریض کو فالج ہو جائے تو اس کو دوسری ، تیسری اور چوتھی بار بھی فالج کا حملہ ہو سکتا ہے۔ جن عوامل کی وجہ سے اسے فالج ہوتا وہ تو اس کے جسم میں بعد میں بھی موجود رہتے ہیں۔ جب تک شوگر‘ بلڈپریشر‘ کولیسٹرول کو کنٹرول نہیں کیا جائے گا اس سے بچا نہیں جاسکتا‘ مریض کے لیے واک کرنا بہت اہم ہے۔ہمارے ملک میں سگریٹ نوشی بہت ہے۔ جب تک یہ ساری چیزیں رہیں گی تب تک بار بار فالج ہوتا رہے گا۔
٭ دماغی بیماریوں کا علاج مکمل ہوتا ہے؟
ج: اللہ تعالیٰ نے جسم میں مختلف سیل رکھے ہیں۔ اگر جلد پر کٹ لگ جائے تو وہ خود بخود ٹھیک ہو جاتی ہے ۔ ہڈی ٹوٹ جائے وہ دوبارہ جڑ جاتی ہے۔ دماغ پورے جسم کا ہیڈکوارٹر ہے۔ جسم کی ہر چیز دماغ سے کنٹرول ہوتی ہے اور اگر دماغ کی کسی نس میں کوئی پرابلم آ جائے تو وہ نس دوبارہ نہیں بن سکتی۔ دماغ میں اگر کوئی کمی پیدا ہو جائے تو وہ مشکل سے ہی دور ہوتی ہے۔ وہ مرض پوری طرح ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اگر نس میں خون کے بہاؤ میں رکاوٹ آجائے تو وہ نس جسم کے جس حصے کو خون سپلائی کر رہی ہوتی ہے وہ سارا حصہ damage ہو جاتا ہے اور وہ ساری عمر کے لیے damage ہی رہتا ہے۔ مریض تیس سے پچاس فیصد ہی علاج سے بہتر ضرور ہوتا ہے ۔ اس مرض کی علامات رہیں گی مگر مریض اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لیتا ہے۔
٭ مرگی کے مرض کی کیا وجوہات ہیں؟
ج:مرگی کے مرض کا تعلق بھی دماغ سے ہے۔ مرگی کے مریض کو دورے پڑتے ہیں۔ ہمارے دماغ کے اندر ایک کرنٹ ہے جب وہ کرنٹ بڑھ جاتا ہے جو پورے جسم میں پھیل جاتا ہے تب مریض کو مرگی کے دورے پڑتے ہیں اور مریض تڑپتا ہے‘ منہ سے جھاگ نکل آتی ہے۔ کئی مریضوں کا تو پیشاب پاخانہ نکل جاتا ہے۔ کئی مریض چوٹ لگوا لیتے ہیں۔ نوے فیصد مرگی کے دورے پڑنے کی کوئی اور وجہ نہیں ہوتی۔ اس مرض کا علاج بہت اچھا ہے۔ عموماً مریضوں کو دو سال تک دوائی دی جاتی ہے۔ مریض کو کہتے ہیں کہ دوائی کھانے میں ناغہ نہ کریں۔ اس سے 50 فیصد مریض ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ باقی 50 فیصد مریضوں کو لمبا عرصہ دوائی کھانی پڑتی ہے۔ مگر یہ کوئی پرابلم نہیں ہے۔ عبدالستار ایدھی مرحوم بھی مرگی کے مریض تھے۔ وہ دوائی کھاتے تھے بالکل نارمل تھے۔ اصل میں لوگوں کو اس مرض کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔
٭ مرگی وراثتی بیماری ہے؟
ج: کچھ کیسز میں وراثتی بیماری ہے۔ مرگی کے سو مریضوں میں شاید ایک یا دو فیصد کو مرگی کا مرض وراثتی ہو۔ مرگی کی اور بہت وجوہات ہیں۔ نوے فیصد لوگوں یہ مرض بغیر کسی وجہ کے ہوجاتا ہے ۔ دماغ میں چوٹ لگنے سے مرگی بن سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کے دماغ میں ٹیومر ہوتا ہے۔ اس میں بھی مریض کو دورے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ دورے پڑنا مرگی کی نشانی ہو سکتی ہے۔ فالج ہونے کے بعد پانچ یا دس فیصد چانسز ہ مریض کو مرگی ہونے کے ہوتے ہیں۔ مریض کو دورے فالج سے، مرگی ہونے سے اور شوگر کم ہونے سے پڑ تے ہیں۔
٭ مرگی کا مرض کس عمر میں ہوسکتا ہے؟
ج: اس مرض کے ہونے کی عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ یہ چھ سال کی عمر سے لے کر 26 سال کی عمر تک ہو سکتی ہے۔ ویسے تو یہ عمر کے کسی حصے میں بھی ہو سکتی ہے۔ جن بچوں میں یہ بیماری پیدائشی ہوتی ہے ان کا علاج کرنا مشکل ہوتا ہے۔
٭ فالج کے کس عمر میں ہونے کے چانسز ہو سکتے ہیں؟
ج: فالج بڑھتی عمر کی بیماری ہے۔ ویسے نوجوانی میں بھی فالج بھی ہو سکتا ہے۔ بڑھتی عمر سے مراد چالیس سال کی عمر کے بعد عام ہوتا جاتا ہے۔ پچاس سال کی عمر میں فالج کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔ جوں جوں عمر بڑھتی جائے گی فالج ہونے کے خطرات بڑھتے جاتے ہیں۔ چالیس سال کی عمر کے بعد اپنے کھانے پینے میں احتیاط برتنا بہت ضروری ہے۔ اس سب بیماری کی بنیادی وجہ ہمارا لائف سٹائل ہے۔ ہمارے ملک میں لقواء بھی عام ہے۔ دو ہفتے دوائی کھانے یا ورزش سے لقواء ٹھیک ہوجاتا ہے۔
٭ دائیں جانب اور بائیں جانب کے فالج میں فرق کیا ہے اور خطرناک کونسا ہے؟
ج: دائیں اور بائیں جانب کے فالج میں علامات کا فرق ہوتا ہے۔ عموماً دائیں جانب کا فالج زیادہ پرابلم کرتا ہے اس حصے کے فالج میں مریض کی بات کرنے کی سکت چلی جاتی ہے۔ بندہ بول نہیںسکتا یا پھر سمجھ نہیں سکتا۔ اگر سمجھ لے تو بول نہیں سکتا۔ دوسرا ہم ہر کام دائیں ہاتھ سے کرتے ہیں۔ اگر دائیں جانب فالج ہوگا تو مریض کھانا بھی نہیں کھا سکتا۔ لکھ نہیں سکے گا۔ ایسے مریض بینک چیک پر دستخط نہیں کرسکتا اس کے ڈاکٹر کو بینک والوں کو لکھ کر دینا پڑتا ہے تب مریض کو چیک پر انگوٹھا لگانے کی اجازت ملتی ہے دائیں جانب کا فالج مریض کو زیادہ معذور بنا دیتا ۔ بائیں جانب کے فالج میں مریض میں کمزوری آتی ہے۔
٭ کس عمر میں یادداشت کم ہوتی ہے؟
ج: یادداشت ساٹھ ستر سال کی عمر میں تھوڑی بہت ہی کم ہو تی ہے اس بارے میں زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ یادداشت کی کمی کی وجہ سے بندہ کسی کا نام بھول جائے، پیسے رکھ کر بھول جائے۔ ایسی چیزیں تو اکثر ہوجاتی ہیں۔ یہ آغاز ہے ہاں جب مریض گھر سے باہر نکلے اور گھر کا راستہ بھول جائے۔ اپنے بچوں کے نام بھول گیا۔ مریض بینکر ہو حساب کتاب کرنا بھول گیا۔ یہ پریشانی کی بات ہے۔جب مرض ایڈوانس ہوجاتا ہے تو مریض خود سے باتھ روم بھی نہیں جاسکتا اُسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ میں نے جانا ہے کہ نہیں۔ یاداشت کم ہونے والے مریضوں میں خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور اس کی وجہ سٹریس ہوتی ہے۔ رعشہ بڑی عمر کی بیمار ی ہے اس میں مریض کے ہاتھ کانپنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کا چلنا پھرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دوائی کھانے سے مریض بہتر ہوجاتا ہے ۔ Bopamineکی کمی کی وجہ سے رعشہ ہوجاتا اور یہ کیمیکل دماغ میں ہوتا ہے۔ دماغ میں ایک مرتبہ جو بیماری ہوجاتہ ہے اس سے مکمل نجات ممکن نہیں ہے۔