عبداللہ حسین اداس نسلیں کا راست فکر ناول نگار
’’اداس نسلیں‘‘۔ ’’نادار لوگ‘‘ اور ’’قید‘‘ جیسے ناولوں کے خالق عبداللہ حسین قید حیات سے آزاد ہو کر زیر لحد چلے گئے اور اب پرسکون ابدی نیند سو رہے ہیں لیکن ادبی دنیا میں کہرام بپا ہے کہ اردو ناول اور افسانے کی صنف اس قصہ گو سے محروم ہو گئی ہے جو آج کے انسان کے دکھ کو پہچانتا تھا، اس کا درد اپنے دل میں محسوس کرتا تھا اور پھر اپنی ساری واردات کو کاغذ پر اتار کر زمانے کے سپرد کردیتا تھا کہ وہ دور جس میں اس نے زندگی گزاری ہے اپنے پورے جزر ومد کے ساتھ آئندہ نسلوں کے مطالعے کے لئے محفظو ہو جائے۔
میں عبداللہ حسین کو ان خوش قسمت ادیبوں میں شمار کرتا ہوں جو اپنی پہلی تصنیف پر ہی شہرت کی چاندنی میں شرابور ہوجاتے ہیں اور ان کی تصنیف کا ذکر ملک کے ہر لکھے پڑھے شخص کی زبان پر بے اختیار ہونے لگتا ہے، عبداللہ حسین نے اردو آٹھویں جماعت تک پڑھی تھی، نویں جماعت میں انہوں نے سائنس کو لازمی مضمون کے طور پر اختیار کیا اور بی ایس سی کرنے کے بعد سیمنٹ فیکٹری میں کیمسٹ ہوگئے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے والد کو نئے لکھنے والے اردو کے مصنفین کی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا، چنانچہ عبداللہ حسین نے بھی کرش چندر ، ممتاز مفتی، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیری اور منٹو کی کتابیں اپنی طالب علمی کے زمانے میں پڑھ ڈالیں اور تعلیم کی تکمیل کے بعد کی فرصت نے انہیں بور کرنا شروع کیا تو قلم اٹھایا اور ناول لکھنا شروع کردیا۔ اس وقت انہیں یہ علم نہیں تھا کہ وہ کوئی بڑا ادب پارہ تخلیق کررہے ہیں، انہوں نے تو اپنی فرصت کا ایک مناسب حل نکالا تھا اور جب ناول مکمل ہوگیا تو ’’نیا ادارہ لاہور‘‘ کے چودھری نذیر احمد کو بھیج دیا جن کے ادبی مشیر سلیم الرحمن تھے۔ دونوں اس ناول سے بہت متاثر ہوئے لیکن اس وقت تک عبداللہ حسین ادبی دنیا میں اجنبی تھے۔ ان کی کوئی تحریر کسی معیاری ادبی رسالے میں شائع نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ ان سے ایک افسانہ ’’ندی‘‘ لکھوایا گیا جو ’’سویرا‘‘ میں شائع ہوا اور اس کے ساتھ ہی ٹی ہائوس میں نذیر احمد چودھری نے اعلان کردیا کہ اردو کا ایک عظیم ناول ان کے ادارے سے چھپنے والا ہے جسے ’’ندی‘‘ کے مصنف عبداللہ حسین نے لکھا۔ چنانچہ ’’اداس نسلیں‘‘ کی شہرت اس کی اشاعت سے پہلے ہی پھیل گئی اور جب تین نسلوں کی یہ کہانی جو برطانوی راج پر پھیلی ہوئی ہے 1963 میں شائع ہوئی تو اسے متحدہ ہندوستان کا ایک نمائندہ ناول قرار دیا گیا اور اس کا موازنہ قرۃ العین حیدر کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘ سے کیا جانے لگا جو تاریخ کو الگ انداز میں بیان کرتا ہے اور صداقت یہ ہے کہ اس ناول نے عبداللہ حسین کو ایک دن میں ممتاز ناول نگاروں کی صف میں شامل کردیا اور پھر ان کی شہرت کم نہ ہوئی۔
عبداللہ حسین کا اصلی نام محمد خان تھا، ابھی کم عمرہی تھے کہ والدہ وفات پا گئیں۔ ان کی تربیت ان کے والد اکبر خان نے کی جو سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد گجرات میں آباد ہوگئے تھے۔ زمیندارہ کالج سے بی اے کرنے کے بعد حالات کی نامساعدت کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور اپنی راہ خود نکال لی۔ کہانیاں تو انہوں نے میٹرک کے زمانے میں ہی لکھنا شروع کردی تھیں لیکن زیادہ شہرت افسانہ ’’ندی‘‘ اور ’’سمندر‘‘ کو حاصل ہوئی جو ’’اداس نسلیں‘‘ کی ادبی رونمائی سے پہلے ان سے لکھوائی گئی تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس شہرت کو عبداللہ حسین نے نخوت پسند نہ بنایا اور پھر اچانک لندن چلے گئے۔ جہاں انہوں نے ملازمت بھی کی اور عالمی افسانوی ادیب کا مطالعہ گہری نظر سے کیا،اس دوران میں انہوں نے دوسرا ناول ’’باگھ‘‘ لکھا اور کہانیوں کا مجموعہ ’’نشیب‘‘ دوبارہ شائع کیا۔ ’’قید‘‘ اور ’’رات‘‘ ان کے دو اور مختصر ناول ہیں۔ تاہم پانچویں ضخیم ناول ’’نادار لوگ‘‘ میں عبداللہ حسین کا فن مزید نکھر کر سامنے آیا اور ان کی پذیرائی نہ صرف پوری اردو دنیا میں ہوئی بلکہ مختلف زبانوں میں ان کے تراجم بھی کیے گئے۔ لیکن واضح رہے کہ ’’اداس نسلیں‘‘ کا ترجمہ عبداللہ حسین نے خود کیا تھا۔ ایک اور ناول ’’آزاد لوگ‘‘ پر کام کررہے تھے کہ کینسر کے مرض نے ان کی جان لے لی۔
عبداللہ حسین اپنی وضع کے انوکھے ادیب تھے، انہوں نے کسی ادبی تنظیم کی رکنیت کبھی اختیار نہیں کی لیکن وہ کہا کرتے تھے کہ اس تحریک نے ادب کے امکانات کو وسیع کیا، نئے موضوعات دیئے اور ادیبوں کی سوچ کا زاویہ بدل ڈالا لیکن وہ یہ بھی کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اس تحریک میں سیاست در آئی اور یہ پروپیگنڈہ بن کر رہ گئی، کرشن چندر کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس نے کمرشل رویہ اختیار کرلیا اور ادب پر اپنا نظریہ ٹھونسنا شروع کردیا، ان کے خیال میں تخلیقی کام اور بالخصوص ناول اور افسانے کا فیصلہ وقت کرتا ہے، بالفاظ دیگر فن کا اصلی مصنف زمانہ ہے، پروپیگنڈہ ادب کو دوام ابد عطا نہیں کرسکتا۔
عبداللہ حسین اپنے عہد کے ادب کے بارے میں باخبر رہے تھے۔ وہ ادبی انجمنوں کے جلسوں میں تو شریک نہیں ہوتے تھے لیکن قومی اور بین الاقوامی سطح پر قائم ہونے والی کانفرنسوں میں بلائے جاتے تو ضرور جاتے اور اپنے خیالات کا اظہار برملا کرتے جو دوسرے نقادوں کی گھسی پٹی آرا سے مختلف ہوئے اور بعد میں موضوع بحث بھی بنائے جاتے۔
مجھے یاد ہے کہ دہلی کے رسالہ ’’ذہنِ جدید‘‘ نے اس صدی کے آغاز پر اس ناول کا ایک سروے کرایا تھا، اس سروے میں سب سے بہترین ناول نگار عبداللہ حسین کو قرار دیا گیا لیکن خود انہیں یہ خیال آیا کہ عوام کی یہ رائے قرۃ العین حیدر کو قبول نہیں ہوگی، چنانچہ انہوں نے عینی آپا کو ایک خط لکھا کہ وہ خود قرۃ العین حیدر کو اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار تسلیم کرتے ہیں، عبداللہ حسین کی عظمت یہ ہے کہ اس نے اپنی بڑائی قرۃ العین حیدر کو پیش کردی، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ہی اردو کے بڑے افسانہ نگار اور ناول نویس ہیں۔
عبداللہ حسین سے آخری ملاقات اس تقریب میں ہوئی تھی جو رسالہ ’’تخلیق‘‘ کے مدیر سونان اظہر جاوید نے ساولہ مہمانوں ایوارڈ کی تقسیم کے لئے لاہور میں منعقد کی تھی۔ اس کے لئے ڈاکٹر کیول دھیر خاص طور پر لاہور آئے تھے۔ ڈائس پر مجھے عبداللہ حسین کے ساتھ بٹھایا گیا تھا، تقریب کے بعد بھی ہم دونوں قریباً ایک گھنٹہ وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ عبداللہ حسین خوش باش تھے اور اپنے قارئین کی اس رائے سے مختلف نظر آئے کہ وہ پرمردہ دل انسان ہیں۔ اس وقت مجھے ان میں کسی بیماری کے آثار نظر نہیں آئے تھے لیکن اب کہا جاتا ہے کہ کینسر اپنا مہلک وار کر چکا تھا۔ جس کاعلم عبداللہ حسین کو نہ ہو سکا۔
آج وہ اردو دنیا میں جو خلا پیدا کرگیا ہے وہ بہت بڑا ہے۔ عبداللہ حسین جیسا افسانہ نگار، ناول نویس اور بھلا انسان تادیر پیدا نہ ہوگا اور اگر ہوگا تو اس میں عبداللہ حسین جتنے خواص نہیں ہوں گے۔ بلاشبہ وہ ایک عظیم انسان تھا۔ حقیقی معنوں میں شریف اور صداقت پسند اور راست گفتار اور راست فکر۔۔۔