اسلام سلامتی اور خیر خواہی کا دین ہے ،اسلام دین فطرت ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو جس طبیعت پر پیدا کیا ہے اُس کا اصل تقاضا دینِ اسلام ہی ہے۔اسلام ہی انسان کی جسمانی اور روحانی ضرورتوں کا کفیل ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے مبلغین اور معلمین کوہمیشہ یہ تاکید فرمائی کہ وہ دین کو پیچیدہ اور دشوار بنا کر پیش نہ کریں۔
٭ حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگوںکے لئے آسانی پیدا کرو،ان پر سختی نہ کرو ، لوگوں کو خوش خبری سناؤ اور (انہیں دین سے) متنفر نہ کرو۔ (بخاری)
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی کھڑا ہوا اور اس نے مسجد میں پیشاب کر دیا۔ لوگوں نے اسے پکڑ لیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فرمایا: اس کو چھوڑ دو اور اسکے پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دو کیونکہ تم آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو تمہیں تنگی پیدا کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ (بخاری )
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین کے کاموں میں شدت اختیار کرے گا دین اس پر غالب آجائے گا، لہٰذا تم درست کام کرو اور دین کے قریب رہو اور ثواب کی خوش خبری دو اور صبح و شام اور رات کے کچھ حصہ میں عبادت سے مدد حاصل کرو۔(بخاری)
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھابیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوںکے درمیان اختیار دیا جاتا تو آ پ ا ن میں سے زیادہ آسان چیز کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہوتا اور اگر گناہ ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سے اپنی ذات کے لئے انتقام نہیں لیا لیکن جب کوئی اللہ تعالیٰ کی حدود کی خلاف ورزی کرتا تو آپ اس سے اللہ تعالیٰ کے لئے انتقام لیتے۔ (بخاری )٭ ایک دفعہ نجران کے چودہ عیسائی حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے مدینہ منورہ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایااور انہیں اپنے عیسائی طریقہ کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دی۔ چنانچہ عیسائی حضرات نے مسجد نبوی کے ایک کونے میں مشرق کی طرف رخ کر کے اپنی عبادت کی۔(تفسیر قرطبی )
٭ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک عیسائی غلام تھا آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی۔ اس نے انکار کر دیا تو آپ نے قرآن مجید کا حوالہ دیا کہ دین میں جبر نہیں ہے اور اس سے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا اور حضرت عمر فاروق ؓ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو حضرت عمر فاروق ؓ نے اس عیسائی غلام کو آزاد کر دیا۔(عمر بن الخطاب ابن جوزی )