حرص کا انجام
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیاتھا کہ اگر وہ ہمیں اپنے فضل سے نوازے تو ہم ضرور (اسکی راہ میں) صدقہ کرینگے ( التوبہ۵۷)
مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت ثعلبہ بن حاطب نامی ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی جسے اسکی بدبختی اور غلط اندیشی نے نفاق میں مبتلا کردیا۔ یہ شخص بڑا تنگ دست اور مفلوک الحال تھا۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست کی کہ آپ اس کیلئے کشادگی اور کثرت مال کیلئے دعا فرمائیں۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ثعلبہ تھوڑا مال جس کا تو شکر ادا کرسکے اس کثیر مال سے بہتر ہے جس کا تو شکر ادا نہ کرسکے لیکن اس تلقین کے باوجود وہ جناب رسالت مآب میں بار بار یہی درخواست کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے یہ بھی کہا، یا رسول اللہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں کثرت ِ مال پر بھی شکر ادا کروں گا اور عہد کیا کہ اگر اللہ نے اسے بہت سا مال دیا تو وہ ضرور صدقہ وخیرات کریگا۔ اس پر کریم وشفیق آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کیلئے دعا فرمادی۔ اب اسکے جانور اس طرح بڑھے جس طرح کیڑے مکوڑے بڑھتے ہیں۔ ثعلبہ آنحضرت کے ساتھ نماز باجماعت اور جمعہ ادا کیا کرتا تھا لیکن جب مال مویشی کی تعداد بڑھ گئی تو ان کو لے کر مدینہ سے باہر چلا گیا اور مسجد نبوی کی نمازِ باجماعت اس سے چھوٹ گئی، لیکن وہ جمعہ پر حاضر ہوتا رہا۔ اسکے بعد اسکے جانور اور بڑھ گئے تو مشغولیت کی بناء پر اس سے جمعہ بھی چھوٹ گیا۔ ایک بار حضور نے استفسار فرمایا، ثعلبہ نظر نہیں آتا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ اپنے کثیر مال کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتا ، آپ نے فرمایا: وائے افسوس اے ثعلبہ! اسکے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کی وصولی کیلئے دوافراد کا تقر ر کیا ۔ لوگ خود زکوٰۃ لے کر انکے پاس آتے۔ وہ ثعلبہ کے ڈیر ے کے پاس سے گزرے تو انھوں نے ثعلبہ سے بھی زکوٰۃ کا مطالبہ کیا۔ وہ رقعہ بھی پڑھ دیا جس میں زکوٰۃ اور فرائض کا ذکر تھا۔ ثعلبہ کہنے لگا یہ تو جزیہ ہوا یا جزیہ کی بہن ، اس وقت تم چلے جائو۔ میں ذرا سوچ لوں۔ اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ اب ثعلبہ زکوٰۃ لے کر خود مدینہ طیبہ حاضر ہوا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری زکوٰۃ لینے سے منع فرمادیا ہے۔ ثعلبہ آہ و زاری کرنے لگا۔ مگر آپ نے فرمایا یہ تمھارا اپنا فعل ہے میں نے تمہیں حکم دیا تھا مگر تم نے میری بات نہیں مانی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدوہ زکوٰۃ لے کر حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لیکن انھوں نے بھی قبول نہ کی، حضرت عمر کے عہد میں پھر حاضر ہوا لیکن انھوں نے بھی اسے دھتکار دیا۔ حضر ت عثمان کے عہد میں وہ مر گیا۔ لالچ اور نفاق اسکے کسی کام نہ آیا۔ (ابن جریر ، طبرانی، بیہقی )