حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے پہلے بھی مکہ میں کچھ سلیم الفطرت انسان ایسے تھے، جو بت پرستی سے بیزار ہوچکے تھے، جن پر مشرکین کے خود ساختہ عقائد کی حقیقت بے نقاب ہوگئی تھی۔ اس راز کو جاننے کے بعد وہ اپنے اپنے طور پر حقیقت کی تلاش میں رہتے تھے۔
ان میں سے ایک زید بن عمر بن نضیل بھی تھے۔ جن کے بیٹے حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو نہ صرف یہ کہ قبول اسلام کا شرف حاصل ہوا بلکہ ان کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتاہے۔ یعنی وہ دس صحابہ کرام جن کو ان کی زندگی میں جنت کی بشارت ملی ۔یہ زید رشتے میں حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے۔
زید نے جب بتوں سے بیزاری کا اظہار کیا تو انھیںمشرکین کے ظلم وستم کا نشانہ بننا پڑا، بالآخر وہ زمین شام کی طرف ہجرت کر گئے۔لیکن وہاں بھی انھیں نصاریٰ نے بڑی ایذا ء پہنچائی،اور انھیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ زید نے اپنی تلاش کے بعد یہ جان لیا تھا کہ نبی آخرالزمان کی بعثت ہونے والی ہے۔ وہ کہتے تھے’’مجھے یقین ہے کہ ایک نئے دین کا ظہور ہونے والا ہے۔ لیکن مجھے خبر نہیں ہے کہ میں اس کا زمانہ پاسکوں گا یا نہیں۔زید موحد (توحید کے ماننے والے)تھے لیکن عبادت اور بندگی کے طریقوں سے واقف نہیں تھے۔
ایک صحابی عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،’’ زید بن عمرو بن نفیل نے مجھ سے فرمایا تھا۔بنو عبدالمطلب میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں ایک پیغمبر کے ظہور کا منتظر ہوں۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ میں ان کا زمانہ پاسکوں گا یا نہیں ۔میں اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ ان کی تصدیق کرتا ہوں۔ اور ان کے نبی ہونے کی گواہی دیتا ہوں اگر تمہیں لمبی عمر ملے اور ان سے ملاقات ہوتو ان کی خدمت میں میر اسلام پہنچا دینا۔میں تمہیں ان کی صفات بتا دیتا ہوں۔تاکہ تم انھیں پہچان لو وہ نہ تو دراز قامت ہوں گے اور نہ کوتا ہ قد ، ان کے بال نہ تو گھنگریا لے ہوں گے نہ ہی سیدھے۔ان کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔
ان کا اسم گرامی ’’احمد ‘‘ہوگا۔ مکہ ان کی جائے پیدائش اور مقام بعثت ہوگا۔ ان کی قوم ان کے پیغام کو پسند نہیں کرے گی اوروہ یثرب کی طرف ہجرت کرجائیں گے۔ تم کسی مغالطے میں نہ رہنا میںنے دین ابر ہیمی کی تلاش میں دنیا چھا ن ماری ہے میں جس اہل کتاب سے دریافت کرتا وہ یہی کہتا کہ یہ دین تمہارے بعد آنے والا ہے ۔اور بہت نے ان کی یہی علامات بیان کیں۔
عامر کہتے ہیںمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تو میں نے آپ کو زید کی باتیں بتائیں اور ان کا سلام پہنچایا ۔آپ نے ان کے سلام کا جواب عنایت فرمایا۔ ان کے لیے رحمت کی دعاء کی اور فرمایا۔’’میں نے زید کو جنت میں دامن گھسٹتے ہوئے دیکھا ہے۔
(البدایہ النھایہ )