ناموسِ رسولؐ اور صحابہؓ
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ (اپنی کم عمر ی کا ایک واقعہ)روایت فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دیکھا، قریش نے حضور اکرم ﷺکو گھیر رکھا تھا۔ کوئی آپ کو پکڑ کر کھینچتا،کوئی دھکا دینے کی جسارت کرتا اور سب کہتے جاتے تھے۔ تم وہی ہو جس نے سب خدائوں کو ملا کر ایک کردیا ہے۔ یہ منظر اس قدر بھیانک تھا کہ (فوری طور پر) کسی کو حضور کے پاس جا نے کی ہمت نہ ہوئی۔ایسے میں ابو بکر آگے بڑھے،انہوں نے قریشیوں میں سے کسی کو مارا، کسی کو دھکا دیا،کسی کو پیچھے ہٹایا یہ سب کچھ کرتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے۔کیا تم اس شخص کو (محض اس پاداش میں) قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے۔ یہ کہہ کر جناب علی مرتضیٰ نے اپنی چادر اٹھائی اورزار و قطار رونے لگے، یہاں تک کہ ان کی ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوگئی۔اس حالت میں آپ نے لوگوں سے استفسار فرمایا۔ بتائو ! آل فرعون کا مومن اچھا تھا یا ابو بکر صدیق، لوگ (آپ کے احترام میں) خاموش رہے۔ آپ نے دریافت فرمایا ۔کیاتم مجھ کو جواب نہیں دو گے۔ اس کے بعد ارشاد ہواکہ بخدا ابو بکر کا ایک لمحہ آل فرعون کے مومن جیسے شخص کے ہزاروں لمحوں سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ وہ شخص اپنا ایمان پوشیدہ رکھتا تھا اور ابوبکر اپنے ایمان کا (برملا ) اظہار کرتے تھے۔ (مجمع الزوائد )
٭حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ لوگوں کی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی کیفیت کیاتھی، آپ نے ارشاد فرمایا ۔ اللہ کی قسم آپ کی ذاتِ گرامی ہمارے نزدیک ،ہمارے اموال ، اولاد ، ماں باپ اور پیاسے کو جس قدر ٹھنڈا پانی مرغوب ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ محبو ب تر تھی۔ (الشفائ)
٭صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ کے والد گرامی حضرت عبداللہ بن عمر وبن حزام الانصاری کو غزوہ احد میں شہادت کا اعزاز نصیب ہوا۔ (ایک بار)جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر سے ارشاد فرمایا : میں تمہیں ایک خوشخبر ی نہ سنائوں۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیوں نہیں آپ مجھے ضرور خوش خبر ی سے سر فراز فرمایے۔اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوشخبر یوں سے فیض یاب فرماتا رہے۔ ارشادہوا: شہادت سے سرخروہونے کے بعد اللہ کریم نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور انہیں اپنے سامنے بٹھا کر ارشادفرمایا، اے میرے بند ے جو چاہو طلب کرو ،میں تمہیں ہر چیز عطا کروں گا۔انہوں نے عرض کیا :اے میر ے پاک پروردگار میں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا ۔ میری تمنا ہے کہ تو مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ میں ایک مرتبہ پھر تیرے محبو ب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرتا ہوا جامِ شہادت نوش کروں۔ ارشاد الہٰی ہوا۔ میری طرف سے فیصلہ ہوچکا ہے کہ تو دنیا میں دوبارہ لوٹ کر نہیں جائے گا۔ (ترمذی)