نوشکی ڈرون حملہ: ڈرائیور کے بھائی کی درخواست پر امریکی حکام کیخلاف مقدمہ درج
کوئٹہ + اسلام آباد (بیورو رپورٹ+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) بلوچستان کے علاقے نوشکی میں ہونے والے ڈرون حملے کی ایف آئی آر لیویز کے مل تھانہ میں درج کرا دی گئی ہے۔ یہ ایف آئی آر ٹیکسی ڈرائیور محمد اعظم کے بھائی محمد قاسم کی مدعیت میں درج کرائی گئی ہے جس میں امریکی حکام کو نامزد کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں 5/4/3 ایکسپلوسیو ایکٹ، 7 اے ٹی اے، 302/109/ 427 کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ میڈیا میں امریکی حکام نے واقعہ کی ذمہ داری قبول کی۔ امریکی حکام کی جانب سے پاکستان میں دراندازی کی گئی ہے۔ انہوں نے اسکی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ محمد اعظم کے بھائی محمد قاسم نے ایف آئی میں موقف اختیار کیا کہ میرا بھائی بے گناہ تھا، اس کے چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، وہ گھر کا واحد کفیل تھا۔ محمد اعظم کے بھائی نے امریکی حکام کیخلاف قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈرائیور محمد اعظم کے چچا حاجی خدائے نذر نے بتایا کہ ہمیں انصاف چاہیے۔ ہم ڈرون حملہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں، میرا بھتیجا محمد اعظم مکمل طور پر بے قصور تھا۔ اس کے کسی بھی دہشت گرد گروہ سے کوئی تعلقات نہیں تھے۔ واضح رہے 21 مئی کو بلوچستان میں پاک افغان سرحد کے قریب 2 افراد کی جلی ہوئی نعشیں ملی تھیں۔ جن کی فوری طور پر شناخت نہیں ہو سکی تھی تاہم ان کی نعشیں کوئٹہ کے سول ہسپتال منتقل کی گئیں، جہاں ان کی شناخت اس وقت ولی محمد اور محمد اعظم کے نام سے ہوئی تھی، ٹیکسی ڈرائیور محمد اعظم بلوچستان کے علاقے تفتان کا رہائشی تھا شناخت کے بعد اس کی نعش اہل خانہ کے حوالے کر دی گئی تھی۔ محمد اعظم کے اہل خانہ نے بتایا وہ اپنی ٹیکسی میں ایک ہی سواری کو تفتان سے لے کر روانہ ہوا تھا۔ دریں اثناء وزیراعظم کے معاونِ خصوصی امور خارجہ طارق فاطمی نے کہا ہے کہ نوشکی ڈرون حملے کا عسکری قیادت کو بھی علم نہیں تھا، حملے کو انٹیلی جنس کی ناکامی کہنا درست نہیں، اس میں کئی اندرونی اور بیرونی عناصر ملوث ہیں لیکن کئی باتیں ایسی ہیں جنہیں افشا نہیں کیا جاسکتا، پاکستان کے پاس ابھی تک ایسی کوئی ٹیکنالوجی موجود نہیں جس سے ڈرون کا پتہ لگایا جاسکے۔ پاکستان ڈرون حملوں پر احتجاج تو کرسکتا ہے، لیکن ان کا منہ توڑ جواب دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا، ایسے حملوں کی کبھی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں کی پالیسی سے امریکہ کو تو نقصان ہوگا، ساتھ ہی خطے پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے متعلق سوال پر طارق فاطمی نے واضح کیا کہ پاکستان نہ صرف حقانی نیٹ ورک، بلکہ تمام دہشت گرد گروپس کے خلاف ایکشن میں ہے، لیکن ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں امن صرف پاکستان نہیں لاسکتا، یہ تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ایک طرف امریکہ مسلسل پاکستان کی سرزمین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پھر ہم ان سے امداد کیوں لیتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش یہی ہے کہ ہم امریکہ سے کسی قسم کی امداد نہ لیں لیکن اس کا تعلق ملکی اقتصادی صورتحال سے ہے یقیناً ہم کسی سے بھی امداد لینے کے خواہش مند نہیں۔ موجودہ حالات میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل غیر یقینی سی صورتحال کا شکار ہے کیونکہ ملا اختر منصور کے بعد ہمارے ادارے اب طالبان کی نئی قیادت کے ساتھ رابطہ کریں گے۔ اس بات کو رد نہیں کیا جاسکتا افغان امن عمل اور کیو سی جی نے جو فیصلہ کیا تھا اسے اس ڈرون حملے نے ختم کیا ہے۔ طالبان سے صرف پاکستان نہیں دوسرے ملک بھی رابطے میں ہیں اور دوسرے ممالک بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہاں امن کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ 12 اکتوبر 1999ء کے اقدامات سے ملک اندھیروں میں ڈوب گیا اور ہمارا وقار مجروح ہوا۔ ملا اختر منصور کے پاس ویزا تھا نہ ہی ڈرون کے پاس پھر بھی دونوں پاکستان میں دندناتے پھر رہے تھے جو 1999 کے اقدامات کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کی زمینی اور فضائی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی۔ ملا منصور کے پاس پاکستان کا پاسپورٹ تھا، لیکن جو ڈرون آیا اس کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا ان حالات کا ذمہ دار کون ہے۔
اسلام آباد (آئی این پی+نوائے وقت رپورٹ) پاکستان نے بلوچستان میں ڈرون حملے میں تحریک طالبان افغانستان کے سابق امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کی باضابطہ تصدیق کر دی ہے، ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے کی گئی، ملا اختر منصور کی میت ورثا کے حوالے کر دی گئی۔ ترجمان وزارت داخلہ کے مطابق بلوچستان میں ڈرون حملے میں مرنے والے دوسرے شخص کی بھی حتمی شناخت ہو گئی، ترجمان وزارت داخلہ کے مطابق اس بات کی بھی تصدیق ہوگئی ہے کہ حملے میں مرنے والا شخص تحریک طالبان افغانستان کا سابق امیر ملا اختر منصور ہی تھا۔ ڈی این اے کا سیمپل مُلا منصور کے قریبی عزیز سے لیا گیا جو اس کی میت لینے افغانستان سے آیا تھا۔ اس سے قبل ڈرون حملے کے بعد امریکہ نے مُلا اختر منصور کے مرنے کی تصدیق کی مگر وزیر داخلہ چودھری نثار نے مُلا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی تھی، وزارت داخلہ نے ملا اختر منصور کی شناخت کیلئے انکے ڈی این اے ٹیسٹ لئے تھے جن کی رپورٹ وزارت داخلہ کو مل گئی ہے۔