مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت سے تعلقات کی ضرورت نہیں، حکومت ایکشن پلان تیار کرے: اے پی سی
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) جماعت اسلامی کے زیراہتمام ملک بھر کی تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس نے اعلان کیا ہے کہ جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ نہیں ہوجاتا، ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بھارت کیساتھ تعلقات کا راستہ مسئلہ کشمیر کے حل سے ہوکر گزرتا ہے۔ کانفرنس میں شریک جماعتوں نے جماعتِ اسلامی پنجاب کی طرف سے 31 جولائی 2016ء کو ناصر باغ سے واہگہ تک کشمیر مارچ کی مکمل حمایت کر دی اور اس مارچ میں اپنے کارکنوں سمیت بھرپور شرکت کا یقین دلایا ہے۔ اس کانفرنس میں قائدین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔اظہارخیال کیا مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ آل پارٹیز کانفرنس، مقبوضہ جموں وکشمیر کے طول وعرض میں بھارت کے غاصبانہ تسلط کے خلاف اور اپنے مسلمہ حق خودارادیت کے حصول کے لیے جدوجہد میں مصروف عوام اور قائدین کو ان کی استقامت پر سلام پیش کرتی ہے۔ کانفرنس نے کشمیری عوام کو ریاست پاکستان کی طرف سے یقین دلایا ہے کہ وہ ان کی مبنی برحق جدوجہد میں ان کے ساتھ ہے اور اس امر کا اعلان کرتی ہے کہ کشمیر ہماری ترجیح اول ہے اور اسی لیے مسئلہ کشمیر پر حمایت یامخالفت اقوام عالم کے ساتھ ہماری دوستی اور دشمنی کا ایک پیمانہ ہے۔ مسئلہ کشمیر تقسیم برصغیر کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل ہے۔کانفرنس نے قابض فورسز کی طرف سے ممنوعہ پیلٹ گن کے استعمال کی مذمت کی ہے۔ بھارت کا مسلسل کرفیوں کے ذریعے کشمیری عوام کو مستقل عذاب میں مبتلارکھنا، اخبارات، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ پرپابندی عائد کرکے دنیا کو کشمیر کی صورت حال سے بے خبر رکھ کر ظلم وستم کے پہاڑ توڑنا ایسے گھنائونے جرائم ہیں جن کی بنیاد پر بھارت کو انسانی حقوق کمیشن اور عالمی رائے عامہ کے سامنے بے نقاب کرنا انتہائی ضروری ہے کانفرنس نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں ٹھوس اور ضروری اقدامات کرے۔ بھارتی مظالم کی تصاویر کو فیس بک سے ہٹادینے کا اقدام فیس بک انتظامیہ کی جانبداری ہے لہذا فیس بک اپنے دوہرے معیار اور جانبدارانہ رویے کو فوری طور پر ختم کرے۔کانفرنس نے بھارتی وزیر خارجہ سُشماسوراج کے جموں وکشمیر سے متعلق بیان کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ ریاست بھارت کاحصہ نہیں بلکہ اقوام متحدہ کا تسلیم شدہ متنازعہ خطہ ہے۔کانفرنس نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں امرناتھ شرائن بورڈایشو کے بعد پھر ایک بار عوام کی رہنمائی کے لیے قائدین کی طرف سے مشترکہ پروگراموں کے اعلان کو خوش آئند قرار دیا ۔سید علی گیلانی کے جموںوکشمیر کے منصفانہ حل اور امن کیلئے فارمولے کی حمایت کی۔ کانفرنس نے پاکستانی حکومت،فوج ، سیاسی ومذہبی جماعتوں،میڈیا اور سول سوسائٹی کی طر ف سے مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ کیے گئے یکجہتی کے اظہار کی تحسین کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے اور جموں وکشمیر کی موجودہ صورت حال پر بحث اور متفقہ قرارداد کے ذریعے مقبوضہ خطے کے عوام کو ایک مثبت پیغام بھیجنے کی ضرورت کا احسا س دلاتی ہے۔ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پہلے تمام دینی وسیاسی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس بلائے تاکہ متفقہ اور مستقل کشمیر پالیسی تیار کی جائے۔کانفرنس نے او آئی سی سیکرٹری جنرل کے کشمیر سے متعلق بیان کا خیرمقدم کیا اور اور مطالبہ کیا کہ مقبوضہ خطے میں انسانی حقوق کی پامالی اور کرفیو سے پیداشدہ صورت حال (غذائی اجناس کی قلت اور جان بچانے والی ادویات کی عدم دستیابی) سے نمٹنے کے لیے او آئی کاہنگامی اجلاس بلایاجائے۔ راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ بھارت سے تعلقات کا راستہ کشمیر سے ہوکر گزرتا ہے کشمیر کے علاوہ بھارت سے تعلقات کی بحالی کی کوئی خواہش نہیں ہے پاک بھارت تعلقات کا راستہ کشمیر سے ہوکر گزرتا ہے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر سلامتی کونسل کے اجلاس کی طلبی کے لیے متحرک کر دیا ہے۔ پاکستان نے او آئی سی کے اجلاس کے لیے رابطے شروع کر دئیے ہیں۔ چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر ہمارے موقف پر کوئی ابہام نہیں ہے اقوام متحدہ نے کشمیریوںکو فیصلے کا حق دیا ہے در حقیقت اس مقصد کے حصول کے لیے پالیسی میں ابہام موجود ہوتے ہیں پارلیمینٹ میں اس حوالے سے بحث کی جائے کہ کیا عملی اقدامات ہو سکتے ہیں۔ کانفرنس نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم وتشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیاہے کہ وہ بھارتی مظالم کا معاملہ تمام عالمی فورمز پر اٹھانے سمیت اس سلسلے میں ٹھوس اور ضروری اقدامات کرے، حکومت پاکستان آزادی کشمیر قومی ایکشن پلان تیار کرے ، اگلے مرحلہ پر اے پی ایچ سی کو کشمیر کے متفقہ پلیٹ فارم سے آگے بڑھ کر ان کی اسمبلی کے طور تسلیم کرنے پر غور کرے، حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے آزادی کشمیر ایکشن پلان تیار کیا جائے جس پر مرحلہ وار اقدامات طے کئے جائیں ۔