فوج کو ثالثی کی درخواست نہیں کی : نوازشریف‘ حکومت نے سہولت کار بننے کا کہا، فوجی ترجمان یہی وزیراعظم کا موقف ہے: نثار
فوج کو ثالثی کی درخواست نہیں کی : نوازشریف‘ حکومت نے سہولت کار بننے کا کہا، فوجی ترجمان یہی وزیراعظم کا موقف ہے: نثار
اسلام آباد (وقائع نگار) وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ سیاسی بحران کے حل کیلئے فوج نے ثالثی کا کردار مانگا نہ ہم نے فوج کو درخواست کی۔ سیاسی جماعتیں نظریات قربان نہیں کرتیں، حکومتیں ٹھکرا دیتی ہیں۔ میرے نظریئے اور اصول ہیں جن پر سودے بازی نہیں کرسکتا، اصولوں اور نظریات پر دس حکومتیں قربان کرسکتا ہوں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے میرے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ ہم نے جمہوریت کیلئلے جہدوجہد کی۔ متحرمہ بے نظیر بھٹو یساتھ ملکر ہم نے پاکستان میں آئین کی بقاء اور قانون کی بالادستی کا عہدکیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کیلئے جلاوطنی اور مصائب جھیلنے کے بعد اصولی موقف سے یوٹرن لینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ انہوں نے کہا یہ منصب آنے جانے ہیں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی بقاء کیلئے کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے بھی کچھ نظریات اور اصول ہیں جن پر دس حکومتیں بھی قربان کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ رات کی صورتحال پر وزیر داخلہ نے حکومتی موقف بیان کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھرنوں سے پیدا ہونیوالی صورتحال پر فوج نے ثالثی کاکردا ر مانگا نہ ہی ہم نے انہیں کوئی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر چونکہ باہر بیٹھے ہوئے لوگوں نے دیا ہے باہر مجمع لگانے والے روز جو سچ بولتے ہیں ان سے قوم بخوبی واقف ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آرمی چیف سے اگر کل انکی ملاقات نہ بھی ہوتی تو بھی فوج نے بہرحال اپنا کردار اد ا کرنا تھا چونکہ آرٹیکل 245کے تحت فوج ریڈ زون کے اندر عمارتوں کی حفاظت پر مامور ہے اور آئی ایس پی آر کے جانب سے بھی اس ضمن میں باقاعدہ بیان جاری کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے ایوان کو بتایا کہ انہیں وزیر داخلہ کے توسط سے یہ پیغام آیا کہ عمران اور طاہرالقادری آرمی چیف سے ملنا چاہتے ہیں میں نے کہا کہ اگر یہ دونوں حضرات آرمی چیف سے ملنا چاہتے ہیں تو وہ ضرور ملیں آرمی چیف کی جانب سے وزیراعظم سے اس ملاقات کی اجازت طلب کی گئی تھی جو ہم نے انہیں دی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اپنے حلف کے ایک ایک لفظ کی پاسداری کرنا مجھ پر فرض ہے۔ بعدازاں وزیراعظم نوازشریف نے پارلیمانی رہنمائوں سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ جو ایوان میں کہا گیا وہی حقیقت ہے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اقتدار کی وجہ سے جھک جائوں گا تو ایسا نہیں ہے۔ تحقیقات کرائیں گے کہ کس نے غلط فہمی پیدا کی۔ قبل ازیں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ حکومت نے شاہر اہ دستور پر جاری دھرنوں کو ختم کروانے کیلئے فوج کو ثالث بننے کی درخواست کی نہ ہی آرمی چیف نے ازخود اس خواہش کا اظہار کیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پی اے ٹی کے ڈاکٹر طاہر القادری نے آرمی چیف کو ثالث بننے کی درخواست کی جس پر وزیرا عظم نے آرمی چیف کو مذکورہ دونوں رہنمائوں سے ملاقات کرنے کی اجازت دی۔ چودھری نثار نے کہا کہ ایوان میں سبھی جماعتوں کے قائدین نے انتخابات اور وزیر اعظم پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ چند ہزار لوگ ایک گروہ کی شکل میں جمہوری آزادی کا لبادہ اوڑھ کر پارلیمنٹ اور نظام لپیٹنے کی بات کررہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ احتجاج کرنیوالوں کا ایجنڈا صرف غیرجمہوری نہیں بلکہ اس ملک کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی رہنمائوں کی رائے تھی کہ دھرنے والوں کے بیشتر مطالبات غیرآئینی ہیں جنہیں تسلیم کرلیا جائے تو کل کوئی دوسرا گروہ بھی انکی تقلید کرے گا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پارلیمانی جماعتوں کے کہنے پر دھرنوں میں رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاون کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ گزشتہ تین ہفتے سے پوری قوم ایک طرف دو گروہ ایک طرف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس ایوان کو یقین دہانی کرواتا ہوں کہ مذکورہ جماعتوں سے مذاکرات پارلیمنٹ کی قراردادوں کے مطابق ہونگے۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ فوج کی طرف سے ثالثی کی پیشکش نہیں کی گئی نہ ہی حکومت اپنے موقف سے ایک انچ بھی نہیںہٹے گی۔ اس پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ کی وضاحت سے دھرنا دینے والوں کی قیادت کے اصل چہرے بے نقاب ہو گئے۔ ثناء نیوز کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ فوج کو جو کردار دیا گیا ہے وہ آئین و قانون کے مطابق ہے۔ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف فوج کو مکمل غیر سیاسی رکھا اور ایسا رکھنا چاہتے ہیں۔ 1977ء سے اب تک ملک کو گھمبیر صورتحال سے نکالنے کے لیے کئی مواقع پر فوج نے حکومت اپوزیشن کے کہنے پر حالات کو ٹھنڈاکر کے ٹریک پر ڈالنے کے لیے کردار ادا کیا۔ حکومت کوئی ایسا کام نہ کرے گی جس سے آئین و قانون کو زد پہنچنے کا خدشہ ہو۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہو ںنے کہا لشکر کشی کے ذریعے مطالبات تسلیم نہیں کیے جا سکتے۔ کسی ایک گروپ کے دبائو زور پر وزیراعظم استعفیٰ نہیں دے سکتے۔ عدالتی کمشن کی رپورٹ کے تحت ایک وزیراعظم تو کیا پوری حکومت گھر جا سکتی ہے پہلے 58 ٹو بی استعمال ہوتی ہے اب ہٹانے کے لیے مقدمات کا سہارا لینے کی کوشش کی روایت سامنے آ رہی ہے فوج مسلم لیگ(ن) کی ہے نہ تحریک انصاف اور نہ عوامی تحریک کی یہ پاکستان کی فوج ہے فوج کو شمالی وزیرستان میں ہونا چاہیے تھا مگر اسلام آباد کی گلیوں، سڑکوں کے تحفظ کے لیے مامور کرنا پڑا ہے۔ دریں اثناء وزیر داخلہ نے گذشتہ روز وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے موجودہ سیاسی صورتحال پر بات کی۔ نجی ٹی وی کے مطابق ملاقات میں دیگر وزراء بھی شریک ہوئے وزیر داخلہ نے ریڈ زون کی سکیورٹی پر بریفنگ دی۔
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ بی بی سی+ نوائے وقت رپورٹ) فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’’آئی ایس پی آر‘‘ کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر ایک مختصر پیغام میں کہا ہے کہ ’’گذشتہ روز وزیراعظم ہاؤس میں ہونیوالی میٹنگ کے دوران حکومت کی طرف سے آرمی چیف کو کہا گیا کہ وہ موجودہ تعطل حل کرانے کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کریں‘‘۔ ٹویٹر پر ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس بیان کے بعد اس بات کی تو قدرے وضاحت ہو گئی کہ فوج سے کس نے رابطہ کیا تھا لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان میں وفاقی وزیر داخلہ کے اس دعویٰ کا جواب نہیں دیا گیا کہ ایک فوجی افسر نے حکومت کو مطلع کیا کہ عمران خان اور طاہر القادری آرمی چیف کے ساتھ ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بیان میں کہا ہے کہ آرمی چیف کو حکومت نے موجودہ سیاسی تعطل کے حل کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کو کہا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ جمعرات کو وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی میٹنگ میں حکومت نے بری فوج کے سربراہ کو کہا موجودہ تعطل کے حل کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کریں۔
اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی+ خبر نگار خصوصی + این این آئی) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کہا ہے کہ حکومت نے فوج کو ضامن یا ثالث کا نہیں سہولت کار کا کردار ادا کرنے کیلئے کہا، آئی ایس پی آر کے بیان میں حکومتی پالیسی کی تائید کی گئی ہے، دھرنا دینے والوں نے تمام اداروں پر عدم اعتماد اور فوج پر اعتماد کا اظہار کیا تھا، حکومت صبر و تحمل کو منطقی انجام تک پہنچائے گی انہیں لاشیں نہیں ملیں گی، ریڈ لائن عبور کی گئی تو ذمہ دار یلغار کرنیوالے ہونگے۔ پنجاب ہائوس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ احتجاج کرنے والوں کے دھرنے میں دوہزار خواتین اور دو سو بچے کئی دنوں سے بیٹھے ہیں، انکی اور عوام کی مشکلات دور کرنی ہیں۔ میڈیا پر جھوٹ کے پہاڑ کھڑے کئے جارہے ہیںکیا یہ ملک کی بہتری ہے۔ آرمی چیف کی حکومت سے ملاقات میں جو فیصلہ کیا قومی اسمبلی میں اس پر اظہار کر دیا پھر ایک حشر برپا کر دیا گیا اسے آئینی اور غیر آئینی لبادہ اوڑھایا گیا، پہلے میں نے پھر وزیراعظم نے اس پر صفائی پیش کی۔ کہا گیا کہ ہم نے ثالث اور ضامن کا کردار ادا کرنے کیلئے کہا میرے الفاظ واضح تھے جان بوجھ کر غلط فہمی ڈالی گئی اور یہ انہوں نے ڈالی جو فوج کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں چھ سے آٹھ ہزار منہاج القرآن کے ملازمین کو اکٹھا کر کے جمہوریت اور سیاست کا نا جائزہ فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں چھ سے 10 ہزار لوگوں اور بچوں کو ڈھال بنا کر، کبھی گرین ایریا میں قبریں کھودی جا رہی ہیں کیا کسی مہذب اور اسلامی معاشرے میں ایسا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آئی ایس پی آر کا بیان حکومت کی باقاعدہ مشاورت سے جاری ہوا پہلے میرے پاس آیا پھر حکومت سے منظوری لی گئی، آئی ایس پی آر کا فوج کو سہولت کار کا کردار ادا کرنے سے متعلق بیان حکومت کے نکتہ نظر کی عکاسی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز سے ایک طوفان برپا تھا پیپلز پارٹی شیر پائو، جے یو آئی ف اور پختونخوا ملی پارٹی نے کہا کہ یہ غیر آئینی کام ہوا۔ وزیراعظم نے اسمبلی میں کہا کہ فوج کو ثالث اور ضامن کا کردار ادا کرنے کیلئے نہیں کہا گیا۔ چوہدری نثار نے کہا کہ کیوں فوج کو بدنام کر رہے ہیں۔ پاکستان کی فوج غیر سیاسی ہے گزشتہ روز بھی فیصلہ آئین اور قانون کے دائرہ میں ہوا ہم فوج کی نیک نامی کا تحفظ کر رہے ہیں اگر ہم اختیارات نہ بھی دیں تو فوج آرٹیکل 245 کے تحت اس وقت ریڈ زون کے اندر ہے اور انکا رابطہ رہتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پاسداری میں حکومت نے انہیں اجازت دی ہے دوسری طرف کہا گیا کہ طاہر القادری اور عمران خان فوج پر اعتماد کرتے ہیں۔ ثالث اور ضامن کیلئے ہمیں فوج نے کہا نہ ہم نے فوج کو کہا۔ حکومت نے دھرنا دینے والوں کو سیاسی جماعتوں، اپوزیشن، وکلائ، پارلیمنٹری کمیٹی، سول سوسائٹی کو ثالث بنانے کا کہا لیکن وہ ماننے کیلئے تیار نہیں تھے کیونکہ وہ الیکشن کمیشن، ٹریبونل اور سپریم کورٹ کے کمیشن کو ماننے کیلئے تیار نہیں جس پر ہم نے پوچھا کہ انہیں کس پر اعتماد ہے تو انہوں نے کہا ہمیں فوج پر اعتماد ہے اس لئے فوج کو سہولت کار کا کردار دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم کو اور پوری قوم کو فوج پر اعتماد ہے انہیں سہولت کار کا کردار سونپا تاہم مذاکرات حکومت اور دھرنا دینے والوں کے درمیان ہونے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تحریک انصاف کے پانچ مطالبات تسلیم کر لئے گئے ہیں وزیراعظم کے استعفیٰ کا معاملہ اس حد تک قبول کیا ہے کہ اگر منظم دھاندلی ثابت ہو گئی تو وزیراعظم اسمبلیاں اور حکومت از خود چلی جائیگی اور حکومت کے رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ کسی الزام پر حکومت کو گھر بھیجنے کی منطق کہاں کی ہے لشکر کشی کی روایت دو سو سال پہلے ہوتی۔ ایف آر درج ہو گئی ہے یہ کہاں کا اصول ہے کہ واقعہ لاہور میں ہو اور وزیراعظم سے لے کر وزیراعلیٰ اور وفاقی وزراء کو نامزد کردیں آج وزیراعظم اور وفاقی وزراء پر ایف آئی آر درج ہوگئی ہے وہ ایف آئی آر ہم نے درج نہیں کرائی ہمیں احساس ہے کہ یہ کتنے طاقتور ہیں لاکھوں کا سمندر ہوتا تو آج حکومت خوفزدہ ہوتی انکے پیچھے دیکھیں تو تین چار سو لوگ کھڑے ہوتے ہیں قوم پر رحم کریں۔ انہوں نے کہا کہ ریڈ لائن کراس کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی یہ حکومت اور فوج کی ذمہ داری ہے اگر ایسا ہوا تو یہ جنگل کا قانون ہو گا دوسری طرف مقصد ایک ہے کہ چند لاشیں گرنی چاہئیں ہم ہر صورت انکی جان و مال کو تحفظ دینگے اگر کچھ ہوا تو ذمہ داری انکی ہو گی سکیورٹی فورسز اس وقت دفاعی پوزیشن میں ہیں اگر یہ فوج کے خیر خواہ ہیں تو ان کو گلیوں میں مقابلے کیلئے نہ کھڑا کریں۔ تشدد کی کارروائی ہوتی ہے تو اس کی ذمہ دار یلغار کر نے والوں پر ہوگی انہوں نے کہا کہ میڈیا تھوڑا سوچے وہ جو نقشہ آج پیش کررہا ہے بطور نیوکلیئر ریاست دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی نہیں ہورہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ پاکستان کے دشمن ہیں شاید انصاف اور اقتدار میں آنے کی خاطر جو کچھ کررہے ہیں۔ ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ حکومت نے موجودہ صورتحال پر اپوزیشن کو اعتماد میں لیا اور وہ مکمل طورپر مطمئن ہیں تمام مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائیگا۔ فوج کی جانب سے کوئی ڈیمانڈ آئی ہے نہ ہی بیک ڈور کوئی ڈیل کرائی جارہی ہے۔ آئی ایس پی آر کا بیان وزیراعظم کی مشاورت سے جاری ہوا ہے، دھرنا دینے والوں کے مطالبے غیر آئینی ہیں۔ حکومت نے آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فوج سے سہولت کار کی خدمات لی ہیں جسے غلط رنگ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کیا پاکستان میں ایسے لوگ ختم ہوچکے ہیں جن پر اعتماد کیا جاسکے کیا دھرنا دینے والے اقوام متحدہ، کینیڈا اور برطانیہ سے لوگ لانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں آج ٹی وی پر 10 ہزار لوگوں کے لیڈرز چھائے ہوئے ہیں اور ملک کو ایک بیماری میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھرنا دینے والے لاشیں گرانا چاہتے ہیں لیکن حکومت دھرنے دینے والوں کی جان و مال کا تحفظ چاہتی ہے۔ حکومت نے اب بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا اور نہ ہی چھوڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ دھرنا دینے والوں نے 14 دنوں سے اسلام آباد پر مکمل قبضہ کیا ہے ایسے تو ملک دشمن بھی نہیں کرتے۔ چودھری نثار نے واضح کیا کہ حکومت کی جانب سے فوج کی سہولت کار کی خدمات کا بتنگڑ بنایا گیا۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ عمران خان اور طاہر القادری نے آرمی چیف سے ملاقات کی درخواست کی بلکہ یہاں کہا تھا کہ مختلف اطراف کی جانب سے اس بات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کسی ادارے پر اعتماد نہیں کررہے، انہیں صرف فوج پر اعتماد ہے لہٰذا معاملے کو سلجھانے کیلئے فوج کی بطور سہولت کار خدمات لی جائیں جو آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہ کر لی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران اور طاہر القادری نے جھوٹ بولنے کی حد کردی۔ بی بی سی کے مطابق آئی ایس پی آر کے اس بیان کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے پریس کانفرنس میں کہاکہ ’آئی ایس پی آر‘ کی پریس ریلیز حکومتی منظوری کے بعد جاری ہوئی۔ یہ پریس ریلیز مجھے بھجوائی گئی جس کی منظوری وزیراعظم سے بھی لی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی افواج غیرسیاسی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فوج کی سہولت آئین اور قانون کے دائرے میں ہے۔ ضامن اور ثالث کہنا غیرآئینی اور غیرقانونی ہے۔ ہم فوج کا تحفظ کر رہے ہیں اسے سیاسی گند میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ آرٹیکل 245کے تحت ریڈ زون میں ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی پاسداری کے لئے جو انٹرایکشن یا سہولت کاری وہ کر رہی ہے حکومت نے اس کی اجازت دی ہے۔ اس کو اس سے زیادہ نہ سمجھا جائے۔ دریں اثناء حکومتی ترجمان نے کہا ہے کہ افواج پاکستان کو متنازع نہ بنانے کی کوشش کی جائے۔ آئی ایس پی آر کا بیان وزیر داخلہ کے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان کی تائید ہے۔