بھارتی پنجاب کے شہر گورداسپور میں بس اور تھانے پر حملہ‘ ایس پی سمیت گیارہ ہلاک‘ بھارت نے پھر بغیر تحقیقات الزام پاکستان پر لگا دیا
گورداسپور+ نئی دہلی (نیٹ نیوز+ بی بی سی+ رائٹر+ اے ایف پی) پاکستان کی سرحد سے متصل بھارتی پنجاب کے ضلع گورداسپور میں دینا نگر پولیس سٹیشن پر حملہ کرنے والوں کے خلاف آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ تینوں مسلح حملہ آور مارے گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 4 پولیس اہلکاروں سمیت 11افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ مسلح حملہ آوروں نے پہلے ایک بس اور پھر پولیس سٹیشن پر حملہ کرکے اس کا گھیراﺅ کیا۔ پی ٹی آئی کے مطابق حملے میں گورداسپور کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (جاسوسی) بلجیت سنگھ سمیت 4پولیس اہلکار، پنجاب صوبائی سروس کا افسر، تین ہوم گارڈز اور تین شہری مارے گئے ہیں جبکہ تینوں حملہ آور بھی مارے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے ابھی تک کسی گروہ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ سکیورٹی فورسز نے 12گھنٹے تک جاری رہنے والے آپریشن کے بعد پولیس سٹیشن پر قبضہ حاصل کر لیا۔ بس پر حملے میں ایک مسافر بھی مارا گیا ہے۔ اے پی پی نے بھارتی اخبار کے حوالے سے بتایا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 13ہے۔ اطلاعات کے مطابق حملہ آور فوج کے یونیفارم میں ملبوس تھے۔ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے کہا ہے کہ کئی سال بعد اس طرح کا یہ پہلا واقعہ ہوا ہے۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے اسے قومی پالیسی سے ہی نمٹانے کی ضرورت ہے۔ یہ حملہ اچانک ہوا ہے۔ خطرے کے بارے میں خفیہ معلومات کے سوال پر انہوں نے کہا: اِن پٹ کہاں دیا تھا؟ اگر اِن پٹ دیا تھا تو سرحد کو سیل کر دیا جانا چاہئے تھا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے دہلی میں سینئر وزراءکے ساتھ ملاقات کی ہے۔ حملے کے بعد وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل ڈی کے پاٹھک سے بات کی اور بھارت اور پاکستان سرحد پر سکیورٹی بڑھانے کی ہدایات دیں۔ پولیس اہلکار دیناکر گپتا نے بتایا کہ حملہ آور مبینہ طور پر مقبوضہ کشمیر کے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق گورداسپور کا ایک دیہی ضلع ہے۔ یہ پنجاب کے دوسرے اضلاع کی طرح خوشحال بھی نہیں اس طرح کے حملے کے لئے یہ پہلا ہدف نہیں ہو سکتا۔ تاہم یہاں پہلی بار ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ پانچ سال قبل یہاں جنگجوﺅں اور پولیس کے درمیان شدید خونریز لڑائی دیکھی گئی۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ٹویٹ کی ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ پرکاش سنگھ بادل سے بات کی جنہوں نے گورداسپور کے حالات کے بارے میں بتایا ہے۔ ”وزارت داخلہ گورداسپور حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جلد حالات پر قابو پا لیا جائے گا“۔ دوردرشن کے مطابق پٹھان کوٹ، امرتسر ریلوے ٹریک پر پانچ بم برآمد کئے گئے ہیں جنہیں بعد میں ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔ بھارت نے پاکستان سے متصل سرحد پر سکیورٹی سخت کر دی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مسلح افراد کی تعدادچار تھی۔ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے الزام لگایا ہے کہ حملہ آور سرحد پار سے آئے ہیں۔ رائٹر کے مطابق پولیس اور حملہ آوروں میں لڑائی 12گھنٹے جاری رہی، مسلح افراد نے پہلے ایک سفید ماروتی گاڑی چھینی پھر صبح 5بجے خودکار ہتھیاروں سے تھانے پر حملہ کیا۔ سارا دن چھوٹے ہتھیاروں کی فائرنگ کی، آوازیں آتی رہیں۔ پولیس حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ حملہ آور دو روز قبل پاکستان سے مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں داخل ہوئے تھے۔ مودی سرکار کے جونیئر وزیر جتندر سنگھ نے کہا ہے کہ اس میں پاکستان کی مداخلت خارج ازامکان نہیں۔ پہلے سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس علاقے میں دراندازی ہو رہی ہے۔ علاقے کی نگرانی سخت کر دی گئی ہے۔ کشمیری رہنما سید صلاح الدین نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کے لوگ اس حملے میں ملوث ہیں۔ رائٹر سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ لوگ کشمیری نہیں۔ یہ داخلی عناصر کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ بھارتی ہندو انتہا پسند تنظےم شےو سےنا کے کارکنوں نے گورداسپور حملے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پاکستانی پرچم نذر آتش کردےا۔ بھارتی مےڈےا کے مطابق پارٹی کے رےاستی نائب صدر اندرجےت کروال کی قےادت مےں شےوسےنا کے کارکنوں نے ان حملوں کے خلاف مظاہرہ کےا اور پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی اس دوران نئی دہلی سے لاہور جانے والی بھارتی بس کا روٹ بھی تبدےل کردےا گےا۔ سنٹرل ریزرو پولیس فورس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے الزام عائد کےا ہے کہ گورداسپور حملے مےں پاکستان ملوث ہے ، ہم پاکستان کیساتھ امن چاہتے ہیں لیکن قومی غیرت کا سودا نہیں کرسکتے، ہم پہلے حملہ نہیں کریں گے لیکن اگر ہم پر حملہ کیاگیا تو مناسب جواب دیں گے۔ بھارتی وزےر داخلہ کا کہنا تھاکہ میں یہ نہیں سمجھ پارہاکہ دوبارہ سرحد پار سے حملے کیوں ہو رہے ہیں۔ بھارت اپنے پڑوسی سے اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ حملے کی خبر کیساتھ ہی روایتی طور پر پاکستان پر الزام عائد کردیا گیا کبوتر کے واقعے کی طرح اس بات کا بھی فوری طور پر تعین کرلیا گیا کہ حملہ آور پاکستان کے علاقے نارووال سے آئے تھے۔ ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آور پاکستان کے علاقے نارووال سے آئے۔ پنجاب کاﺅنٹر انٹیلی جنس کے آئی جی کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کا تعلق لشکرطیبہ یا جیش محمد سے ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ ابتدائی چند سیکنڈز میں ہی بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان پر دہشت گردی کا بغیر تحقیقات الزام لگا دیا جبکہ پاکستان میں پکڑے جانیوالے کئی دہشتگردوں کے بھارت سے تعلقات ثابت ہوچکے ہیں لیکن پاکستان نے کبھی فوری طور پر باضابطہ طورپر بھارت پر دہشتگردی کا الزام نہیں لگایا۔ گورداسپور حملے کا کوئی ملزم پکڑاگیا نہ تفتیش ہوئی لیکن بھارت نے پاکستان پر الزام دھر دیا۔ ڈی جی پولیس سمیدھ سنگھ سینی نے کہا کہ حملہ آوروں نے پی آر ایس سسٹم اور دستی بم اٹھا رکھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ لوگ کہاں سے آئے تھے۔ ان لوگوں کا خالصتان تحریک سے تعلق نہیں لگتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہتھیار چینی ساختہ تھے۔
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) پاکستان نے بھارت کے شہر گورداسپور میں دہشت گردی کی اس واردات کی شدید مذمت کی ہے جس میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو گئی ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی ہر قسم کی مذمت کرتا ہے ہمارے دل متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں ہم بھارت کے عوام اور حکومت کے ساتھ دلی تعزیت کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلئے دعا گو ہیں۔ بھارت نے حسب روایت یہ الزام عائد کر دیا کہ حملہ آور پاکستان کے علاقہ نارووال سے آئے تھے پاکستان کی طرف سے ان بھارتی الزامات کا ابھی جواب نہیں دیا گیا۔ دریں اثناءبھارتی الزامات کے حوالے سے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر سے ہرگز دستبردار نہیں ہونگے، بھارتی الزامات میں کوئی صداقت نہیں ماضی میں بھی ان کے اپنے لوگ ہی ملوث پائے گئے تھے۔
دفتر خارجہ