دس سال میں پہلی بار معاشی ترقی کی شرح پانچ فیصد سے بڑھ گئی , پاکستانی معیشت 300ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے: اسحاق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ دس سال میں پہلی بار معاشی ترقی کی شرح پانچ فیصد سے بڑھ گئی ، جو5.3 فیصد ہوگئی ہے۔ ملکی معیشت 3 سو ارب ڈالرز سے تجاوز کرگئی ، توانائی کی پیداوار بجلی اور گیس کی ترسیل میں اضافہ ہوا , پاکستانی معیشت 300ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے, زر مبادلہ کے ذخائرسولہ اعشاریہ پندرہ ارب ڈالرہو گئے ہیں،جولائی سے اپریل تک مہنگائی کی شرح تسلی بخش رہی ، اگلے مالی سال کے لیے معاشی ترقی کا ہدف چھ فیصد مقرر کیا گیا ہے,مالی سال 2016-17میںزرعی شعبے میں ترقی کی شرح 3اعشاریہ 46فیصدر ہی، صنعتی شعبے کی ترقی 5فیصدرہی ،خدمات کے شعبے نے 5اعشاریہ 98فیصد کی شرح سے ترقی کی۔ برآمدات .21 76ارب ڈالر رہیں گی، جاری کھاتوں کا خسارہ سوا7ارب ڈالر تک پہنچ گیاہے، دس ماہ میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 1.73ارب ڈالر رہی, سال کے آخر تک براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 2ارب 58کروڑڈالر کا تخمینہ ہے ،فی کس سالانہ آمدنی 1629ڈالر رہی ،پاکستان پر غیر ملکی قرضے 58ارب 40کروڑ ڈالرز ہیں ، درآمدات کا حجم 37 ارب 84 کروڑ ڈالر جب کہ برآمدات کا حجم 21ارب 76کروڑ ڈالر رہا، دس ماہ میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ سوا 7 ارب ڈالر رہا جب کہ رواں سال مالیاتی خسارہ 4.2 فیصد رہنے کی توقع ہے, 10ماہ میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ایک ارب 73 کروڑ ڈالر رہی جب کہ سال کے آخر تک بڑھ کر 2 ارب 58 کروڑڈالر تک ہوسکتی ہے، رواں برس بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات کی مد میں 101 ارب روپے رکھے جائیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا افضال اور سیکرٹری خزانہ طارق باجوہ کے ہمراہ مالی سال 2016-17ء کی اقتصادی سروے رپورٹ جاری کرنے کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ بتایا کہ ملک میں ترقی کی شرح مالی سال 2016-17ء میں 5.30 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے، یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم 20 سال پرانے طریقے سے گروتھ ریٹ کا پتہ لگاتے تھے, اب ہم نے اس کو نئے طریقے سے جانچا ہے, عالمی بینک کو بھی ہم نے ایک آزادانہ سٹڈی کے لئے اختیار دیا ہے ان کی رپورٹ بھی 8 سے 12 ماہ میں آ جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ جی ڈی پی میں صنعت کا حصہ 21.88 فیصد، زراعت کا 19.53فیصد اور سروسز کے شعبے کا 59.59 فیصد ہے, گذشتہ سال کے مقابلے میں صنعت کے شعبے میں 5.2 فیصد بہتری آئی ہے, اسی طرح زراعت کا شعبہ 3.46 فیصد اور خدمات کا شعبہ 5.98 فیصد بہتر ہوا ہے. صنعت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لارج سکیل مینوفیکچرنگ کا شعبہ 5.06 فیصد بہتر رہا, یہ کم ہے لیکن اس میں اضافے کا رجحان ہے, مارچ 2017ء میں اس شعبے میں بہتری کی شرح 10.46 فیصد تھی. بجلی کی پیداوار اور گیس کی تقسیم کے حوالے سے وزیر خزانہ نے بتایا کہ مالی سال 2016-17ء میں اس میں 3.4 فیصد اضافہ ہوا ہے, تعمیراتی صنعت کے شعبے میں 9.05 فیصد اضافہ ہوا جبکہ زراعت جو گذشتہ سال 0.19 فیصد منفی رجحان میں تھی اور حتمی اعداد و شمار 2.27 فیصد پر بند ہوئی تھی اس دفعہ بڑھ کر 3.46 فیصد ہو گئی ہے جس کی بڑی وجہ وزیراعظم کا کسان پیکج، کھاد کی قیمتوں میں کمی اور زرعی مداخل کو سستا کرنا ہے, زراعت اہم شعبہ ہے, ہماری معیشت میں اس کا 65 فیصد حصہ ہے اور یہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بڑی فصلوں میں گندم، گنا، کپاس اور مکئی میں 4.5 فیصد بہتری آئی ہے, گندم کی پیداوار اس سال 25.75 ملین ٹن رہی, حکومت زراعت پر مزید توجہ دے رہی ہے, چاول کی پیداوار 6.85 ملین ٹن، مکئی کی 6.13 ملین ٹن رہی جبکہ گذشتہ سال کپاس کی 9.92 ملین گانٹھیں پیدا ہوئی تھیں جو اس سال بڑھ کر 10.7 ملین ہو گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کپاس کی فصل پر خصوصی توجہ ہے اور چاہتے ہیں کہ اپنی ملک کی صنعتوں کی ضرورت 14 ملین گانٹھیں ملک میں ہی پیدا کریں اور ہمیں باہر سے نہ منگوانی پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ گنے کی پیداوار جو گذشتہ سال 65.48 ملین ٹن تھی اس سال بڑھ کر 73.61 ملین ٹن ہو گئی, کاٹن جننگ کے شعبے میں 5.59 فیصد اضافہ ہوا، خدمات کے شعبے میں سال 2016-17ء کے دوران 5.98 فیصد ترقی ہوئی ہے, زراعت اور صنعت کے شعبے میں جو کمی آئی تھی وہ سروسز کے شعبے کو منتقل ہو کر اس کی ترقی بہتر ہو گئی ہے, ہول سیل ٹریڈرز کے شعبے میں 6.82 فیصد اضافہ ہوا جبکہ فنانشل انشورنس کے شعبے میں 10.77 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پی آئی انڈیکس جو جولائی 2016ء سے اپریل 2017ء تک 4.09 فیصد رہا, یہ 5 سال میں 6 فیصد سے نہیں بڑھنے دیا گیا۔ برآمدات کے شعبے میں انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی برآمدات کم ہوئی ہیں یہ ہمارے لئے تشویش کا باعث ہے اس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے, گذشتہ سال جولائی سے اپریل کے دوران 20.54 بلین ڈالر کی برآمدات ہوئی تھیں, اس سال ابھی تک 17.91 بلین ڈالر کی برآمدات ہوئی ہیں امید ہے کہ اس مالی سال کے اختتام تک 21.76 ارب ڈالر ہوں گی, برآمد کنندگان کے لئے خصوصی پیکج پر عملدرآمد کا آغاز ہو چکا ہے, درآمدات کے شعبے میں گذشتہ سال جولائی سے اپریل 33.44 ارب ڈالر کی درآمدات ہوئی تھیں جو پورے سال میں 37.84 ارب ڈالر بنتی تھیں, اس سال توقع ہے کہ پورے سال میں 45.48 ارب ڈالر کی درآمدات ہوں گی۔ اس میں مثبت بات یہ ہے کہ ان میں سے 40 فیصد درآمدات مشینری اور پلانٹس کی گئی ہے جو پاکستان کی ابھرتی ہوئی معیشت کے لئے اچھی خبر ہے۔ درآمدات میں پاور جنریشن کے لئے 70 فیصد، ٹیکسٹائل کے لئے 23 فیصد، تعمیرات کے لئے 69 فیصد، زراعت کے لئے 37 فیصد اور باقی شعبوں کے لئے 80 فیصد اضافہ ہوا۔ اوسطاً یہ 40 فیصد اضافہ بنتا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ جو اس سال 7.25 ارب ڈالر پر پہنچ چکا ہے جس کی وجہ گذشتہ 12 ماہ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور مقامی سطح پر تیل کے استعمال میں اضافہ اور برآمدات کی کمی ہے, یہ خسارہ جی ڈی پی کا 2.4 فیصد بنتا ہے, مالی سال کے اختتام پر یہ 2007 پر ختم ہو گا, مجموعی طور پر یہ 8.3 ارب ڈالر بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک سے بھجوائے گئے ترسیلات زر 15.6 ملین ڈالر ہیں جو مالی سال کے اختتام پر 19.5 ملین ڈالر ہو جائیں گے, براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اس وقت 1.73 ارب ڈالر ہے جو مالی سال کے اختتام تک 2.58 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 30 مئی کو 16.15 ارب ڈالر تھے . انہوں نے کہا کہ ہم نے 500 ملین ڈالر کا چین کو قرضہ بھی واپس کیا ہے اور اگلے ماہ بھی 750 ملین ڈالر کا قرضہ واپس کرنا ہے جو بروقت ادا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قیمت اس وقت 104.87 روپے ہے, اسلام آباد میں دھرنے کی شکل میں جو میوزیکل شو ہوا اس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بڑھی تھی جو ابھی تک چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی کس آمدنی جو جون 2013ء میں 1333ڈالر تھی, اب بڑھ کر 1628.8 ڈالر ہو چکی ہے, جیسے جیسے معیشت مضبوط ہو گی اس میں مزید اضافہ ہو گا۔ اسحاق ڈار نے بتایا کہ سوشل سیفٹی نیٹ کے حوالے سے 2012-13ء میں 42 ارب روپے خرچ کئے جا رہے تھے جس کو بڑھا کر 115 ارب کر دیا گیا ہے اور اس سے 54 لاکھ خاندان مستفید ہو رہے ہیں, ملک میں بے روزگاری کی شرح 5.9 فیصد ہے جبکہ 2014ء کے غربت سروے کے مطابق 9.5 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی کر رہے ہیں, اگر پرانے فارمولے کے مطابق سروے کیا جائے تو یہ 29 فیصد بنتا ہے جو 2002ء میں 34.4 فیصد تھا۔ انہوں نے کہا کہ سٹاک مارکیٹس کو ضم کرنے کے بعد پاکستان کی مارکیٹ کو ابھرتی ہوئی منڈیوں کا درجہ ملا اور چند ماہ بعد ہی اس کو ایشیا کی بہترین مارکیٹ قرار دیا گیا اور اب پاکستان کی سٹاک مارکیٹ کو دنیا کی پانچویں بہترین سٹاک مارکیٹ قرار دیا گیا ہے, مارکیٹ میں 98 ارب ڈالر کی کیپٹلائزیشن ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر 50.176 ارب روپے کا ریونیو جمع کیا جائے گا جس میں ٹیکس کی مد میں 13.1 فیصد اضافہ ہو گا جو 4172 ارب روپے بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیسیکل ڈیفسیٹ 4.2 فیصد ہو گا, ایف بی آر کی وصولیاں 3521 ارب روپے ہونگی جس میں 100 ارب ٹارگٹ سے کم ہے اور اس کی وجوہات پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ ہے, جب ہماری حکومت کے پانچ سال ہوں گے تو ٹیکسوں کی آمدن کی شرح کو دوگنا کر چکے ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کے حوالے سے اس وقت پالیسی ریٹ 5.75 فیصد ہے جو 45 سال کی کم ترین سطح ہے۔ نجی شعبے کو جولائی 2016ء سے اپریل 2017ء تک دیا گیا کریڈٹ 1457 ارب روپے ہو چکا ہے, سرکاری قرضے جو کہ 2008ء میں 6126 ارب روپے تھے, پانچ سال میں یہ 14318 ارب روپے ہوئے اور اب یہ 22872 ارب روپے ہو چکے ہیں, یہ جی ڈی پی کی شرح 59.3 فیصد بنتے ہیں, بیرونی قرضوں کی صورتحال میں بہتری آئی ہے, مارچ 2017ء میں یہ قرضے 58.4 ارب ڈالر تھے جبکہ سٹیٹ بینک کے پاس موجود زرمبادلہ 16.5 ارب کو نکال کر 41.9 ارب ڈالر بنتے ہیں, اس میں 2.2 ارب ڈالر کی بہتری آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سالانہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر 90 سے 100 ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں, جون 2014ء میں آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا گیا اس کی کامیابیاں قابل تعریف ہیں, ہمارے 25 ہزار افراد شہید ہوئے اور اتنے ہی زخمی یا معذور ہوئے, ہم نے یہ جنگ عالمی امن کے لئے لڑی لیکن کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا, دو حکومتیں قبائلی علاقوں میں آپریشن نہ کر سکیں لیکن ہم نے کیا, اس شعبے میں اس سال بھی 100 ارب روپے دیں گے, اس سے قبائلی علاقوں میں تعمیرنو و بحالی کا کام ہو گا اور سول آرمڈ فورسز کے 57 ونگز قائم کئے جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ملکی معیشت کے ساتھ کوئی سیاست نہیں ہونی چاہئے اس حوالے سے سب کو ایک ہو کر چلنا چاہئے, جو بھی ہمیں معیشت کے حوالے سے اچھی تجاویز دیتا ہے ہم اس کو اختیار کرتے ہیں, میرا ایمان ہے کہ ملک دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں ضرور شامل ہو گا, مشکل اہداف طے کرنے پر یقین رکھتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ 2013 اور 2017ء کے پاکستان میں فرق ہے ہمیں الزام تراشی میں نہیں پڑنا چاہئے، پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ملکی برآمدات کو روایتی برآمدات سے ہٹ کر دوسرے شعبوں کی طرف لے جا رہے ہیں, اگر ہم اپنی برآمدات کو 30 ارب ڈالر سالانہ تک لے جائیں تو تمام قرضے ختم ہو جائیں گے ,انشاء اللہ جون 2019ء میں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا, اس سے پہلے بھی ہمیں آئی ایم ایف کے پاس گذشتہ قرضوں کو اتارنے کے لئے جانا پڑا, ہمیں برآمدات اور بجٹ خسارے پر فوکس کرنا ہے۔ 10 سال بعد یہ پہلا سال ہے کہ پاکستان کے ترقیاتی اخراجات لئے گئے قرضوں سے زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی تعداد سوا 12 لاکھ ہے, 30 لاکھ کے اعداد و شمار غلط ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ ہم سب کا پاکستان ہے کسی ایک پارٹی کا نہیں، معاشی اہداف پورا نہ ہونے کی ہیڈ لائن لگانا آسان ہے لیکن موجودہ حکومت مشکل معاشی اہداف کے حصول پر یقین رکھتی ہے۔