پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ واشنگٹن میں تعینات سابق سفیرحسین حقانی کو ویزے جاری کرنے کے اختیار دیئے جانے سے متعلق افشا ہونے والے وزیراعظم ہاوس کے خط میں کوئی نئی اور غلط بات نہیں۔جمعہ کو اپنے بیان میں فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں وزیراعظم ہاوس کی جانب سے وزارت خارجہ کو خط لکھا گیا، جس میں کوئی بھی غلط بات نہیں۔پیپلز پارٹی کے ترجمان نے اپنے بیان میں پارٹی کے سابق وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے یہ خط لکھے جانے یا نہ لکھے جانے کے حوالے سے واضح طور پر تردید یا تصدیق نہیں کی، تاہم انہوں نے افشا ہونے والے خط میں تحریر باتوں پر اظہار خیال کیا۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ خط کے مطابق وزیراعظم کی جانب سے ویزا جاری کرنے کا اختیار سفیر کو دیا گیا تھا، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سفارت خانے نے دیگر متعلقہ اداروں کی مداخلت کے بغیر ویزا حاصل کرنے والوں کو پاکستان کا سفر کرنے کی اجازت دی ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ سابق سفیر کو ان امریکیوں کو ویزا جاری کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، جنہوں نے اپنے سفر سے متعلق مکمل وضاحت کی تھی اور جنہیں امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے تحریری طور پر اجازت دی گئی تھی، جب کہ اس کا مقصد عمل کوتیز کرنا تھا نہ کہ کسی طریقہ کار کو بائی پاس کرنا تھا۔فرحت اللہ بابر نے دلیل دی کہ بیرون ممالک میں موجود سفارت خانے اپنے ملک کی سیکیورٹی ایجنسیز سمیت حکومت کے تمام اداروں کی ترجمانی کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ سوال اہم نہیں ہے کہ کس وجہ سے امریکیوں کو ویزے جاری کیے گئے جنہوں نے بالآخر القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کو نشانہ بنایا بلکہ جواب طلب سوال یہ ہے کہ عالمی سطح پر ایک دہائی تک دہشت گردی کرنے والا اسامہ بن لادن کنٹونمنٹ ایریا میں کس طرح رہائش اختیار کیے ہوئے تھا؟پیپلز پارٹی کے ترجمان نے مطالبہ کیا کہ 2001 سے ویزوں کے اجرا اور طریقہ کار سے متعلق تحقیقات کی جائیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس بات کی بھی تحقیقات کی جائیں کہ مشرف دور میں بلوچستان کے شمسی ایئر بیس کو امریکا کے حوالے کرنے کے بعد کتنے امریکی ویزا اور کتنے بغیر ویزا کے پاکستان میں داخل ہوئے؟سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے ایبٹ آباد کمیشن کو بھی منظر عام پر لایا جائے۔فرحت اللہ بابر کے مطابق قومی سلامتی صرف اس وقت فائدہ مند ہوسکتی ہے جب ویزا پالیسی کی غیر جانبدار تحقیقات کی جائیں گی جب کہ حکومت کی جانب سے مخصوص افراد کو سیاسی مقاصد کے لیے نشانہ بنانا قومی سلامتی کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوگا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024