قصور میں زینب کو اپنی درندگی کا نشانہ بنانے والا ملزم عمران نہ تو ہوشیار تھا نہ ہی چالاک .دوسری ہی بات پر سارے کرتوت کی کہانی بول ڈالی.ملزم زینب قتل کے بعد بھی معصوم بچیوں کا گلا گھونٹ کر قتل کرتا رہا .قاتل کی گرفتاری میں 60 سے 70 ہزار کے قریب افراد تفتیش کے پہلے مرحلے میں شامل ہوئے.قصو ر شہر میں مختلف افراد کو جسمانی اور چہرے کے خدوخال کی بنیاد پر مزید چھان بین کے عمل سے گزارا گیاجس کے بعد تفتیشی ٹیمیں روٹ پر نکلیں اور اس علاقے کے گھر گھر جا کر ان افراد کی حتمی فہرست بنائی گئی جن کا ڈی این اے کیا گیا۔تفتیشی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرے کی شرط پر برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تفتیش کے عمل سے تقریبا 1100 افراد گزرے جن کا ڈی این اے کیا گیا۔ڈی این اے ٹیسٹ کے اس مرحلے پر پاکستان فورینزک سائنس ایجنسی کی جانب سے ایسے افراد کی فہرست سامنے آئی جن کے نتائج قاتل کے ڈی این اے کے قریب ترین تھے۔ ان افراد کی فہرست سامنے آنے کے بعد پولیس نے چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کیا۔ سی سی ٹی وی کی فوٹیج میں ملزم عمران علی نے داڑھی رکھی ہے اور ایک زِپ والی جیکٹ پہن رکھی ہے جس کے دونوں کاندھوں پر دو بڑے بٹن لگے ہوئے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں جیکٹ کا رنگ سفید نظر آ رہا ہے جو اس کا حقیقی رنگ نہیں مگر یہ کوئی بھی گہرا رنگ ہو سکتا تھا۔ چھاپے کے دوران عمران علی کے گھر سے ایسی ہی ایک جیکٹ ملی جس کے دونوں بٹنوں کی مدد سے یہ پولیس ملزم کی گردن تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔اس کا ڈی این اے جب مکمل میچ ہوا تو پھر صرف گرفتاری ہی آخری کام رہ گیا تھا جس میں اس کی والدہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مدد کی۔ ملزم سے تفتیش کرنے والے پولیس افسران کے مطابق ملزم نے بہت زیادہ پس و پیش نہیں کی اور دوسری بات پر ہی اس نے سارے قتل اور جرائم مان لیے ملزم پولیس کی توقع کے برعکس اتنا چالاک اور ہوشیار نہیں تھا بلکہ چند پولیس افسران نے تو یہ تک کہا کہ اگر پولیس اس کیس کو شروع سے بلکہ پہلے قتل کے بعد ہی سنجیدگی سے لیتی اور درست لائن پر تفتیش کرتی تو معاملات اتنی سنگینی نہ اختیار کرتے۔ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ 'زینب کو قتل کرنے کے بعد وہ میلاد کی محفل میں گیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے محفل میں جانے سے قبل وضو کیا یا تیاری کی تو ملزم کا جواب نفی میں تھا۔ ملزم کی والدہ اور چچا نے بتایا کہ انھیں ٹی وی پر فوٹیج دیکھنے کے بعد شک تو ہوا تھا اور باتیں شروع ہوئیں کہ اس کی شکل ملتی ہے مگر کسی نے پولیس کو بتانے کی زحمت نہیں کی۔ پولیس کے مطابق ملزم نہ صرف سیریل کِلر یعنی قاتل ہے بلکہ ایک سیریل پیڈوفائل بھی ہے جو نفسیاتی حد تک بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہے۔ملزم نے دورانِ تفتیش بتایا کہ وہ پکڑے جانے کے ڈر سے بچوں کا گلا گھونٹ کر انہیں موت کے گھاٹ اتارتا تھا۔ ملزم نے دورانِ تفتیش بتایا کہ اس نے پانچ بچیوں کو زیرِ تعمیر گھروں میں ریپ کر کے قتل کیا اور نعش قتل کے دن ہی ٹھکانے لگا دی جبکہ زینب سمیت تین لڑکیوں کو کوڑے کے ڈھیر کے قریب یا اسی پر ریپ کر کے قتل کر کے پھینک دیا جہاں سے زینب کی نعش ملی تھی۔یاد رہے کہ گزشتہ روز نجی ٹی وی سے گفتگو میں زینب کی والدہ نے قاتل کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ عمران کو سر عام لٹکا کر عبرت کا نشان بنایا جائے، قاتل کے اہل خانہ بھی اس قتل میں برابر کے شریک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی کے قاتل کا حساب ہم خود لیں گے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024