دھرنا جاری ‘ پولیس پر پتھرائو ‘ شیلنگ‘ تحریک لبیک کا آج ملک بھر میں مظاہروں کا اعلان
اسلام آباد/ راولپنڈی/ لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے+ وقائع نگار خصوصی+ خصوصی نامہ نگار) فیض آباد انٹرچینج کے قریب ایکسپریس وے سوہان کے قریب پولیس کی جانب سے تحریک لبیک یا رسول اللہ پاکستان کے دھرنا کے شرکاء کیلئے پانی کا ٹینکر روکنے پر کارکنوں نے پولیس پر غلیلوں ، پتھروں سے حملہ کردیا جس سے دو درجن سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ ایس پی رورل ڈاکٹر تنویر مصطفی کی سربراہی میں سوہان کی جانب سے دھرنے کی سکیورٹی کیلئے مامور ٹیم نے اچانک سوہان کی طرف سے فیض آباد کی جانب جانے والے پانی کے ٹینکر کو روک دیا جس کی اطلاع دھرنے میں شرکاء کو ملی تو کارکن لبیک یا رسول اللہ کے فلک شگاف نعرے بلند کرتے ہوئے سوہان کی جانب دوڑ پڑے جو اپنے ڈنڈے فضا میں لہراتے اس جانب گئے پولیس نے کارکنوں کو روکنے کیلئے حصار بنایا تو کارکن ٹیلے پر چڑھ گئے اور پولیس پر پتھر برسانے شروع کردئیے۔ اضافی نفری بھی بلوائی گئی لیکن پولیس کسی کارکن کو پکڑنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ دریں اثناء حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان مذاکرات کے پانچویں دور میں بھی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ کے سوال پر ڈیڈلاک برقرار رہا جس کے بعد تحریک لبیک پاکستان کے قائدین علامہ حافظ خادم حسین رضوی اور پیر محمد افضل قادری نے یہ بنیادی مطالبہ تسلیم ہونے تک فیض آباد میں دھرنا جاری رکھنے اور آج پیر کو ملک بھر احتجاجی مظاہرے کرنے کی کال دے دی۔ خادم حسین رضوی نے کہاکہ وزیر قانون کا استعفیٰ ہمارا بنیادی مطالبہ ہے حکومت وزیر قانون کو برطرف کرے تو ہم مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ اگر وزیر قانون قصوروار نہیں تو وہ مجرم کا نام بتائیں۔ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے ہمارا دھرنا جاری رہے گا یہ عقیدہ ختم نبوت اور حضورؐ کے ناموس کا سوال ہے۔ کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ امریکی صدر ٹرمپ ہمارے دینی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ امریکی صدر امریکہ کے معاملات ہی چلائیں۔ دھرنے میں شریک کارکنوں نے پرجوش نعروں کے ذریعے دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کی تائید کی۔ پولیس پر پتھرائو کے جواب میں پہلی بار آنسو گیس کی شیلنگ کر کے دھرنے کے شرکاء کو منتشر کیا گیا جبکہ پولیس، رینجرز اور ایف سی کے دستے آپریشن کیلئے مکمل طور پر تیار ہیں تاہم حکومت مذاکرات کے ذریعے دھرنا ختم کروانا چاہتی ہے، دھرنے کے باعث راستے اور سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہسپتالوں میں جانے والوں کو بھی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اتوار کو دھرنے کے شرکاء نے کھنہ پل اور فیض آباد کی طرف سے پولیس پر پتھرائو کیا۔ پولیس نے پہلی بار جوابی کارروائی کرتے ہوئے دھرنے کے شرکاء کو منتشر کیا اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ حکومت کی جانب سے دی گئی دوسری ڈیڈ لائن بھی ختم ہوگئی۔ وزیر داخلہ نے کہا ہے دھرنے والوں کیخلاف آپریشن کسی بھی وقت شروع ہو سکتا ہے لیکن یہ آخری آپشن ہوگا۔ ذرائع کے مطابق دھرنے کی انتظامیہ وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کے مطالبے پر بدستور قائم ہے ان کا موقف ہے کہ زاہد حامد کے مستعفی ہونے کے بعد ہی آگے بات ہوسکتی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے دھرنے والے سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کرکے عوام کے جذبات کو بھڑکا رہے ہیں۔ احسن اقبال اور وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات نے نیوز کانفرنس کی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ مذاکرات کے مختلف دور ہوئے۔ پاکستان کی موجودہ یا کوئی بھی حکومت ختم نبوت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ختم نبوت کی محافظ پارلیمنٹ اور عوام ہیں۔ ختم نبوت سے متعلق قانون جنرل مشرف کے دور میں صرف دس دن تک رہا اور فوت ہوگیا تھا اب اس قانون کو حکومت نے قیامت تک زندہ کردیا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا دھرنے والے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ یہ لوگوں کے جذبات بھڑکا رہے ہیں۔ ختم نبوت کے حوالے سے عوام کے جذبات بھڑکانے کا تعلق دین سے نہیں بلکہ سیاست سے ہے۔ اگر کوئی جماعت دھرنے کے ذریعے اگلے انتخابات میں اپنا سیاسی کیریئر بنانا چاہتی ہے تو کھل کر اظہار کرے۔ انہوں نے کہا عوام کو اس بات پر مشتعل کرنا کہ ختم نبوت خطرے میں ہے کسی طور بھی مناسب نہیں۔ دھرنے کے ذریعے جو امیج دنیا میں پاکستان کا جا رہا ہے وہ کسی طور بھی مناسب نہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا غیر ملکی سفارتکار اور صحافی ہم سے پوچھتے ہیں کہ ختم نبوت کے حوالے سے کیوں ملک میں جھگڑا ہے، ہم نے کہا اس معاملے پر قوم میں کوئی جھگڑا نہیں ہے، دھرنے والوں کا ختم نبوت سے متعلق جذبہ ساری قوم نے دیکھ لیا ہے لہذا اس تنازعے کو ختم ہونا چاہئے۔ ہم سختی نہیں کرنا چاہتے میں اس معاملے میں دیر کرکے توہین عدالت کا مرتکب ہورہا ہوں۔ میں نے عدالت سے مزید وقت کی درخواست کی ہے۔ ہم کسی کو ختم نبوت کے معاملے پر سیاست کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ وزیر مملکت پیر امین الحسنات نے کہا کہ ہمارا اﷲ کے نبی حضرت محمدؐ کے ساتھ عزت‘ پیار اور حرمت کا رشتہ ہے۔ احسن اقبال نے مزید کہا دھرنے سے جو امیج جارہا ہے اسے پاکستان کے دشمن استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے دھرنے کے شرکا سے اپیل کی کہ وہ دھرنا ختم کردیں۔ علاوہ ازیں وزیر داخلہ احسن اقبال نے آج تمام مکاتب فکر کے علماء کا ہنگامی اجلاس بلا لیا۔ اجلاس میں دھرنے کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے حتمی مشاورت کی جائے گی۔ دریں اثناء سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا ہے کہ اسلام آباد دھرنے میں ختم نبوت کے پروانوں پر تشدد کرانے والے حکمرانوں سے اب ہماری کھلی جنگ ہو گی۔ ختم نبوت سے غداری کرنے والی حکومت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ عاشقان رسول کے دھرنے پر ظلم و تشدد حکومت کے خاتمے کا باعث بنے گا۔ پیر صاحب گولڑہ شریف پیر غلام نظام الدین جامی نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ وزیر قانون مستعفی ہونے کیلئے تیار لیکن پارٹی رکاوٹ ہے۔ حکومت راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ شیئر نہیں کررہی۔ ختم نبوت دھرنے کیخلاف ایکشن ہوا تو ایک وزیر نہیں ساری حکومت جائیگی۔
اسلام آباد (جاوید صدیق) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین سینیٹر راجہ ظفر الحق کے گھر تحریک لبیک یارسول اﷲ کے نمائندہ وفد اور حکومتی نمائندوں کے طویل مذاکرات میں تعطل اس بات پر پیدا ہوا کہ تحریک کے نمائندے زاہد حامد کے استعفیٰ پر اصرار کرتے رہے۔ حکومتی وفد کی طرف سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ وزیر قانون زاہد حامد نے بھی پارلیمنٹ میں وہ بل پیش کر کے منظور کرایا جس میں ختم نبوت کے عقیدہ کے بارے میں حلف کی اصل عبارت بحال کی گئی اور عقیدہ ختم نبوت کو مزید قانونی تحفظ فراہم کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود تحریک کا وفد مطمئن نہ ہوا۔ طویل مذاکرات کی ’’نوائے وقت‘‘ کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق حکومت نے تحریک لبیک کے نمائندوں کو وزیر قانون زاہد حامد کی تقریر اور بیان کا وہ سکرپٹ بھی فراہم کیا جس میں انہوں نے اقرار کیا کہ وہ ایک سچے اور راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ اس کے باوجود بات نہیں بنی۔ تحریک کے وفد نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ انہیں حکومت سے مذاکرات کے لئے یہ مینڈیٹ دے کر بھیجا گیا کہ وزیر قانون کا استعفیٰ لائیں۔ وفد کے ارکان نے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اﷲ کے بیانات اور ویڈیوز بھی حکومت کے وفد کو دیئے جن میں تحریک کے وفد کے مطابق رانا ثناء اﷲ نے احمدیوں کے حق میں بیان دیا۔ وفد نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما راجہ ظفر الحق کی تعریف کی اور کہا کہ ہم راجہ ظفر الحق کے گھر پر اس لئے بات چیت کے لئے آئے ہیں کہ ہم راجہ صاحب کا احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے احمدیوں کے خلاف تحریک میں قابل قدر کردار ادا کیا اور وہ ایک عرصہ سے عقیدہ ختم نبوت کے استحکام کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ راجہ ظفر الحق کی اقامت گاہ پر ہونے والے مذاکرات میں جن دوسرے مذہبی اکابرین نے حصہ لیا اور حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے کی کوششیں کیں تاہم ان کی کوششیں بھی بارآور ثابت نہ ہو سکیں۔ ہفتہ کی رات اڑھائی بجے تک ہونے والے مذاکرات میں تحریک کا وفد یہ کہہ کر رخصت ہوا کہ وہ بات چیت کی تفصیلات سے دھرنا کے منتظمین اور دوسرے ساتھیوں سے مشاورت کے بعد کوئی ردعمل دیں گے۔ حکومت ہائی کورٹ سے اس کے حکم پر عملدرآمد کے لئے مزید وقت مانگنے کے لئے عدالت سے رجوع کرے گی۔ اتوار کے روز وزیر داخلہ احسن اقبال کی پریس کانفرنس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اور تحریک کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات میں پیشرفت کے امکانات فی الحال معدوم ہو چکے ہیں اگر علماء و مشائخ کوشش کر کے حکومت اور تحریک لبیک میں بات چیت کا تعطل دور کرا سکیں تو شاید بات بن جائے۔
اسلام آباد (محمد نواز رضا/ وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت فیض آباد میں تحریک لبیک یارسول اﷲ کا دھرنا ختم کرنے کیلئے بدستور طاقت کے استعمال سے گریز کر رہی ہے۔ پیر کو وفاقی حکومت جید علماء کرام اور مشائخ عظام کا جرگہ تحریک لبیک یارسول کی قیادت کے پاس بھیجے گی۔ سردست وفاقی حکومت ریاستی طاقت استعمال کرکے دھرنا کے شرکا کو منتشر نہیں کرنا چاہتی۔ وفاقی حکومت نے دو روز فیض آباد میں دھرنے کے شرکا کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا تھا تاہم آپریشن سے چند گھنٹے قبل وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے آپریشن روکدیا۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال ایک گولی چلائے بغیر دھرنا کے شرکا کو منتشر کرنے چاہتے ہیں۔ آنسو گیس کے استعمال سے دھرنا کے شرکا کو منتشر کرنا چاہتی ہے لیکن تحریک لبیک یارسول اﷲ علامہ خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کی مخدوش صحت کے پیش نظر کارروائی سے گریز کررہی ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے اصولی فیصلہ کرلیا ہے کہ ختم نبوت سے متعلق مطالبات تسلیم کرلئے ہیں۔ اسکا کوئی سیاسی مطالبہ تسلیم نہیں کریگی۔ حکومت یہ سمجھتی ہے تحریک لبیک یارسول کی قیادت کا سیاسی ایجنڈا ہے اور وہ فیض آباد دھرنا کو لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق جمعہ کو فیض آباد میں دھرنا کے شرکا کی تعداد 10 ہزار ہوگئی تھی کئی دینی جماعتوں کی جانب سے دھرنا کے شرکا سے اظہار یکجہتی کیلئے جلوس فیض آباد پہنچتے رہے ۔ ذرائع کے مطابق حکومت دھرنا کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کررکھا ہے۔ عجلت میں کوئی کارروائی کرکے ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا نہیں کرنا چاہتی۔ وفاقی حکومت اس لئے بھی سخت کارروائی سے گریز کررہی ہے کہ اس کے نتیجے میں دینی جماعتوں کو حکومت کے خلاف اتحاد قائم کرنے کا موقع نہ ملے۔ ذرائع کے مطابق دھرنا کے شرکا کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے، اب تک 80 افراد گرفتار ہوچکے ہیں۔ دھرنے کے شرکا کو خاموشی سے پولیس اہلکار اٹھالے جارہے ہیں۔