جہانگیر ترین نااہلی کیس: عدلیہ کو نشانہ بنانے والے ہوش کے ناخن لیں، آرٹیکل 62 کے ایک ایک لفظ کا جائزہ لیں: سپریم کورٹ
جہانگیرترین کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے عدلیہ کونشانہ بنانے والے ہوش کے ناخن لیں،ججزاور عدلیہ کااحترام لازمی ہے ۔ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے ایک ایک لفظ کا جائزہ لینا ہوگا، فریقین کے وکلاء آرٹیکل باسٹھ ون پر معاونت کریں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاءبندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی ۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اخبار ات میں شائع ہونے والی خبروں کی وضاحت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ایسی آبزرویشن نہیں دی جوگزشتہ روز ہائی لائیٹ کی گئی۔ہماری آبزرویشن کامطلب فیصلہ نہیں ہوتا۔ عدالتی آبزرویشن چیزوں کوسمجھنے کے لیے ہوتی ہے،انتہائی احتیاط اور محتاط انداز سے کاروائی کوچلارہے ہیں۔اس پر جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے کہا عدالت کے سوالات میرے لیے بہت معاون ثابت ہوتے ہیں،جب سے کیس شروع ہواہے اخبار پڑھنابندکردیا۔یقین ہے میڈیاہیڈ لائن سے قطع نظر عدالت نے اپنافیصلہ کرناہے۔چیف جسٹس نے کہا ہم سوال تب پوچھتے ہیں جب کچھ سمجھ نہ آئے ، جہانگیر ترین کے وکیل نے اپنے دلائل کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا جہانگیر ترین ایس ای سی پی کے معاملہ کو بند اور ختم کرنا چاہتے ہیں۔جہانگیر ترین نے معاملہ کو ختم کرنے کےلئے ایس ای سی پی کو ازالہ کی رقم ادا کی ہے۔ انکے پاس ایس ای سی پی میں دفاع کےلئے جواز موجود تھا وہ کسی تنازعہ میں نہیں پڑنا چاہتے تھے یہ انکی ایمانداری تھی۔آرٹیکل 62 ایک ایف ایمانداری کو ریگولیٹ کرتا ہے۔اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ جہانگیر ترین جے ڈی ڈبلیو کے شیئر ہولڈر تھے اور انہوں نے بطور ڈائریکٹر اندرونی معلومات پر کمپنی کے شیئرز خریدے ۔ اس پر سکندر بشیر نے کہا کہ آرٹیکل 62 ان کا راستہ روکتا ہے جو صادق امےن نہ ہوں ،،ایس ای سی پی کا سیکشن 15 اے اور 15 بی آئین سے متصادم ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے سیکشن کو چیلنج کرنے پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرنا پڑیگا۔ فاضل وکیل نے کہا کہ اٹارنی جنرل معاونت کےلئے پہلے ہی نوٹس جاری ہوچکا ہے، اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون کے سیکشنز پر الگ سے ایک نوٹس جاری کرنا پڑیگا ۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ جہانگیرترین ایس ای سی پی کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں،غیرآئینی قانون پرنااہلی نہیں ہوسکتی،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگرقانون غیرآئینی نہ ہواتوپھرآپ کا موقف کیاہوگا۔سکندر بشیر نے کہا میراموقف ہوگا جہانگیرترین کے کاغذات نامزدگی کوکسی نے چیلنج نہیں کیا۔جہانگیرترین کے خلاف کسی عدالتی فورم کافیصلہ بھی نہیں ہے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا درخواست گزار کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے جہانگیرترین نے اپنے ملازمین کے ذریعے حصص خریدے جبکہ ملازمین کے پاس حصص خریدنے کے لیے رقم نہیں تھی اور ملازمین جہانگیرترین کے بے نامی دارتھے ،عدالت نے ایمانداری کاجائزہ لیناہے ۔ والد گھر پر بچوں کو کہہ رہے ہیں باہر والے کو بتا دو پاپا گھر پر نہیں ہے،یہ بھی ایک قسم کی بے ایمانی ہے،کیا گھر پر نہ ہونا کہہ دینا صادق اور امین کے زمرے میں آتا ہے۔ دیکھنا ہوگا ارکان پارلیمان کی نااہلی کے لیے ایمانداری کی نوعیت کیا ہوگی۔ بے ایمانی کی ایک صورت کرپشن بھی ہے، آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے ایک ایک لفظ کا جائزہ لینا ہوگا۔ فریقین کے وکلاء آرٹیکل باسٹھ ون پر معاونت کریں، اس پر سکندر بشیر نے کہا کہ آرٹیکل 62ون ایف کااطلاق صرف کرپشن پرنہیں ہوتا ،عدالت نے جعلی ڈگری پرآرٹیکل 62پرنااہل کیا ۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آرٹیکل 62کے تحت ایمانداری کے معیار اورسکوپ کوسمجھناچاہتے ہیں،دونوں مقدمات پرعدالت نے ابتک بہت وقت صرف کیاہے ،یہ عدالتی کارروائی ٹرائل سے بڑھ کر ہے ،آئے روز نئی چیزیں عدالت کے سامنے آرہی ہیں ۔اس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ ڈیکلیریشن ٹرائل کے بعد دیا جاسکتا ہے،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت بھی ٹرائل ہی ہورہا ہے،ہم کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ رولز نہیں بنا سکتے،عدالت میں بیٹھے چند دوستوں کے پاس میرا موبائل نمبر ہے،وہ دوست بھی مجھے مقدمات سے متعلق چیزیں وٹس ایپ کردیتے ہیں،وہ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ان کے موقف کو سپورٹ کررہی ہوتی ہیں، اس پر سکندر بشیر نے کہا کہ جہانگیر ترین ایم این اے ہیں انہوں نے خود کو احتساب کےلئے پیش کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل باسٹھ کا جائزہ کیس ٹو کیس لیا جاسکتا ہے،کیا چیٹنگ اور فراڈ بے ایمانی ہے۔ سکندر بشیر نے کہا چیٹنگ اور فراڈ کسی حد تک ایمانداری سے متعلقہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ باتیں جہانگیر ترین کے مقدمے سے نہیں ہیں، عدالتی آبزرویشن پر جائزہ اپنے انداز سے نہ لیں،ججز جس طرح سے دیکھتے ہیں دوسری نہیں دیکھ رہا ہوتا ہے،ٹھیک ہے عدالتی کارروائی کی رپورٹ کرنے والے کافی اچھی رپورٹنگ کر رہے ہیں،لیکن تنقید کرنی ہے توفیصلہ پر ہونی چاہیے۔فیصلہ اگرخلاف بھی آجائے تو قبول کرناچاہیے،لوگ میسج کرتے ہیں ایکشن نہ لینے پر آپ کی رپورٹ خراب ہورہی ہے ۔پارلیمنٹ کے لوگ بھی باعزت ہیں ،ہروقت عدلیہ کونشانہ بنانے والے ہوش کے ناخن لیں،کہاجاتاہے میری پوزیشن خراب ہورہی ہے ۔ میں نے ملک کامفاد دیکھناہے جذبات پرفیصلے نہیں کرنے،معاشرے میں بہت سے معاملات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ججزاور عدلیہ کااحترام لازمی ہے ،عدالت میڈیاکواحتیاط سے کام لینے کاکہتی ہے جج اوروکیل کی دلیل کو عام بندہ نہیں سمجھ سکتا۔عدالت نے ایس ای سی پی کے قانون کے معاملے پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔