پشاور: آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کا حملہ‘ 132 بچوں سمیت 141 شہید
پشاور (بیورو رپورٹ/ نیوز ایجنسیاں/ نوائے وقت رپورٹ) آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں کے حملے میں 132 بچوں سمیت 141 افراد شہید ہوگئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی بدترین دہشت گردی ہے جس پر پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا، وزیراعظم نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کردیا۔ قومی پرچم بھی سرنگوں رہیگا، دہشت گردوں نے ایف سی کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ سکول میں پیچھے سے داخل ہوتے ہی فائرنگ شروع کردی۔ بچوں نے اپنی جانیں بچانے کیلئے بھاگنا شروع کردیا، آپریشن کے بعد سکول کے کلاس رومز اور آڈیٹوریم کی دیواریں گولیوں سے چھلنی ہوچکی تھیں اور ہر طرف خون جمع تھا، حملے کے وقت آڈیٹوریم میں میٹرک کے بچوں کے اعزاز میں تقریب ہورہی تھی، حملہ آوروں نے ایف سی کی وردیاں پہن رکھی تھیں، انہوں نے اندر داخل ہوتے ہی فائرنگ شروع کر دی۔ کینٹ ایریا میں ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے کے نتیجے میں 132 بچوں، 9 سٹاف ممبرز سمیت 141 افراد شہید اور 124 زخمی ہوئے، شہید بچوں کی عمریں 9 سے 16 سال کے درمیان تھیں، سکیورٹی فورسز نے کارروائی کر کے بڑی تعداد میں بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا، جوابی کارروائی میں 7 دہشت گرد مارے گئے، زخمیوں میں بعض کی حالت نازک ہے اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ واقعہ کے بعد ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن کے دوران 121 بچے زخمی ہوئے جبکہ 960 کو بحفاظت باہر نکالا گیا۔ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق کچھ حملہ آور عربی زبان بول رہے تھے۔ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ دہشت گرد کون تھے اور وہ کہاں سے ہدایات لے رہے تھے، دہشت گردوں کی تصاویر حاصل کرلیں، مناسب وقت پر میڈیا کیساتھ شیئر کی جائینگی، ساتوں دہشت گردوں کو سکول کے مختلف حصوں میں ہلاک کیا گیا، بزدلانہ حملے آپریشن پر اثر انداز نہیں ہونگے، آپریشن ضرب عضب جاری رہیگا، حملہ آور بچوں کو یرغمال نہیں بنانا چاہتے تھے اسلئے داخل ہوتے ہی انہیں شہید کرنا شروع کردیا۔ دہشت گردوں نے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ آپریشن کے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپریشن کے دوران 121 بچے زخمی بھی ہوئے۔ اس سے قبل پاکستانی طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے آرمی پبلک سکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ حملہ آور سکول کے پچھلے حصے سے داخل ہوئے اور سکول میں داخلے کے بعد وہ آڈیٹوریم میں گھس گئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں وہاں ہونیوالے پروگرام کے بارے میں معلومات تھیں۔ انہوں نے کہا کہ سکول میں ایک ہزار 99 بچے رجسٹرڈ تھے اور سکیورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران 960 بچوں کو بحفاظت نکالا۔ اس سوال پر کہ بعض لاپتہ بچوں کو دہشت گرد اپنے ساتھ تو نہیں لے گئے؟ پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ چونکہ تمام دہشت گرد مارے گئے ہیں اسلئے اس بات کا امکان نہیں ہے، ممکن ہے کچھ بچے کسی محفوظ مقام پر خود چھپے ہوں، سکیورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران سکول کے روشندانوں سمیت مختلف مقامات پر پناہ لینے والے بچوں کو تلاش کیا۔ انہوں نے کہا کہ سپیشل سروسز گروپ کے کمانڈوز نے ساتوں حملہ آوروں کو سکول کے مختلف حصوں میں ہلاک کیا۔ حملہ آوروں کا منصوبہ بچوں کو شہید کرنا تھا، فوجی ترجمان نے کہا کہ حملہ آور اپنے ساتھ بہت سا اسلحہ لائے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زیادہ وقت کیلئے سکول میں رہنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تمام مارے جانیوالے 7 دہشت گردوں نے خودکش جیکٹیں پہنی ہوئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کے اختتام کے بعد سکول کو انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا ہے۔ دہشت گرد سکول کے پیچھے سے داخل ہوئے اور آڈیٹوریم میں لگے ایس ایس جی نے آپریشن میں ایک دہشت گرد کو آڈیٹوریم کے باہر جانے والے دروازے میں مارا گیا۔ باقی 6 دہشت گردوں کو انتظامی بلاک کے آڈیٹوریم میں مارا گیا جن میں سے 3 دہشت گردوں کو ایس ایس جی نے کھڑکیوں سے نشانہ بنایا۔ کوئیک رسپانس ٹیم 10 سے 15 منٹ میں موقع پر پہنچ گئی تھی۔ دہشت گردوں نے بچوں کو آڈیٹوریم کے دروازوں پر اجتماعی طور پر مارا۔ ایس ایس جی کے 7 جوان زخمی ہوئے جن میں 2 آفیسر بھی شامل ہیں جن کی حالت نازک ہے۔جب دہشت گردوں نے فائرنگ کی تو دو بچے ڈر کر بھاگے۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا بھی پیچھا کریں گے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ ذرائع کے مطابق سکول میں نصابی سرگرمیاں جاری تھیں کہ ایف سی اور سکیورٹی فورسز کی وردی میں ملبوس دہشت گرد سکول کی عمارت کے عقبی حصے سے دیوار پھلانگ کر اندر گھس آئے اور فائرنگ شروع کردی۔ فائرنگ کی اطلاع ملتے ہی سکیورٹی فورسز نے سکول اور علاقے کو گھیرے میں لے کر دہشت گردوں کیخلاف آپریشن شروع کردیا۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے فوری طور پر کارروائی شروع کی گئی، فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹے جاری رہا، فائرنگ کے تبادلے کے دوران دو دہشت گردوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا اور کئی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور سی ایم ایچ منتقل کیا گیا جہاں زخمیوں کو طبی امداد دی گئی، ہسپتال ذرائع کے مطابق زخمیوں میں بعض کی حالت نازک ہے۔ ذرائع کے مطابق ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور لوگوں سے خون کے عطیات کی اپیل کی گئی۔ دوسری جانب ہسپتال منتقل کئے گئے زخمیوں اور شہدا کے اہلخانہ کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا۔ سانحہ پشاور پر وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں نے بھی تین روزہ سوگ کا اعلان کردیا۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، عوامی تحریک اور مجلس وحدت مسلمین نے بھی تین روزہ سوگ کا اعلان کردیا۔ پیپلز پارٹی نے بھی تین روزہ سوگ کا اعلان کردیا۔ پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا، وزیراعظم نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ محمد عمر خراسانی نے سکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے چھ حملہ آور سکول میں داخل ہوئے، یہ کارروائی شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضربِ عضب اور خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کے جواب میں ہے۔ فوجی سکول میں بچوں کو نشانہ بنایا تاکہ انہیں آپریشن میں ہمارے خاندانوں کو پہنچنے والے نقصان کا پتہ چل سکے۔ واقعہ کے بعد پشاور کینٹ سمیت تمام بازار بند ہو گئے، پشاور میں انتہائی سوگ اور غم کا ماحول پایا جاتا ہے، تمام سڑکیں خالی ہوگئیں اور بڑی تعداد میں لوگ خون کے عطیات دینے کیلئے ہسپتالوں میں پہنچ گئے۔ والدین ہسپتالوں میں اپنے پیارے بچوں کو ڈھونڈتے رہے جبکہ تابوت بھی کم پڑ گئے۔ آرمی پبلک سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی بھی دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہوگئیں، انکی نعش سی ایم ایچ پشاور پہنچا دی گئی۔ شہدا میں ٹیچر پروفیسر سعید احمد بھی شامل ہیں۔ قبل ازیں خیبر پی کے کے وزیر مشتاق غنی نے کہا تھا کہ 5حملہ آوروں نے خود کو دھماکوں سے اُڑا دیا۔16 تا 18دسمبر تک سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہیگا۔ اس حوالے سے ایس اینڈ جی اے ڈی کے ویلفیئر ونگ نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ طالبان کے مولانا فضل اللہ گروپ جس نے ملالہ پر بھی حملہ کیا تھا، نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آپریشن ضرب عضب کا جواب ہے۔
پشاور (نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم محمد نواز شریف نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گرد سن لیں ہم اپنے بچوں کے لہو کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے، دہشت گردی کی اس واردات نے پوری قوم کو نیا عزم دیا ہے۔ گورنر ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ تقسیم کی تمام لکیریں مٹا کر پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہو، انشاء اللہ وطن عزیز کی سرزمین ایسی درندگی کیلئے تنگ کردی جائے گی، آپریشن ضرب عضب کو پوری قوم کی پشت پناہی حاصل ہے، ہمارے بہادر افسروں اور جوانوں کی دوسری نسل کا لہو بھی وطن کی نذر ہو رہا ہے، میڈیا دہشت گردی کے خلاف قومی عزم ابھارنے کو پہلی ترجیح بنائے۔ وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گردوں کے خاتمے تک آپریشن ضرب عضب جاری رکھنے کے ٹھوس عزم کا اظہار کرتے ہوئے قوم سے اپیل کی کہ وہ دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنانے کیلئے متحد ہو جائے۔ آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گرد حملے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسی بزدلانہ کارروائیاں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہمارے عزم کو کمزور نہیں کر سکتیں۔ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت قوم میں کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف جنگ بہت سے اہم مقاصد میں کامیابی کے بعد اہم مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ حکومت، قوم اور مسلح افواج ملک سے ہمیشہ کیلئے دہشت گردی کے لعنت کے خاتمہ کے لئے پرعزم ہیں۔ جب تک پاکستان کو انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے مکمل طور پر پاک نہیں کیا جاتا، دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت متاثرہ خاندانوں کے لئے معاوضہ کے پیکیج کا جائزہ لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ کے پیش نظر اہم فیصلے کرنے ہوں گے۔ قبل ازیں وزیراعظم نے سوگوار خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا جن کے بچے اور عزیز و اقارب اس بربریت آمیز حملے میں شہید ہوئے۔ قبل ازیں وزیراعظم نوازشریف نے ہنگامی طور پر پشاور پہنچ کر وزیراعلیٰ خیبر پی کے سے ملاقات کی۔ عمران خان اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی ہنگامی طور پر پشاور پہنچے۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان سے بھی رابطے میں ہیں اور اتفاق کیا ہے کہ ملکر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے۔ یہ پرلے درجے کی بزدلی ہے قوم کو مکمل طور پر متحد ہونا چاہئے اور پوری یکجہتی کا ثبوت دینا چاہئے۔ اب جنگ فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوچکی ہے، صرف تھوڑا سفر باقی رہ گیا ہے۔ ہم پاکستان کی فوج کے ساتھ بیٹھ کر فیصلہ کریںگے۔ ایسا فیصلہ پوری قوم کے لئے ہو گا۔ وزیراعظم کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد حملہ کی اطلاع منگل کو توانائی پر کابینہ کمیٹی کے جاری اجلاس کے دوران دی گئی‘ 100 سے زائد ہلاکتوں کی اطلاع پر وزیراعظم فوری طور پر اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے پشاور پہنچے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد میں اسلام آباد نہیں بیٹھ سکتا یہ قومی سانحہ ہے تمام شہید بچے میرے اپنے بچے تھے میں خود تمام آپریشن کی نگرانی کروں گا اور سوگوار خاندانوں کے دکھ میں شریک ہوں گا۔ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھیں گے۔ پشاور میں ہونے والی دہشت گردی قومی سانحہ ہے۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کیا جائے گا۔ شہدا کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ادھر آرمی چیف کوئٹہ کا دورہ مختصر کرکے ہنگامی طور پر پشاور پہنچ گئے۔ انہوں نے پشاور میں سکول میں دہشت گردی کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ وزیراعظم نے آرمی چیف سے ملاقات کی اور کہا وقت آگیا ہے کہ پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔ دہشت گردی کے اس واقعہ نے پوری قوم کو نیا عزم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وطن کی سرزمین کو ایسے درندوں کیلئے تنگ کر دیں گے۔ آپریشن ضرب عضب کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے آرمی ہیڈکوارٹر پشاور کا دورہ کیا۔ کور کمانڈر پشاور اور آئی جی ایف سی نے وزیراعظم کو سانحہ پشاور پر بریفنگ دی۔ وزیراعظم نواز شریف نے شہید بچوں کے والدین کیلئے 5، 5 لاکھ اور زخمیوں کو 2 لاکھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ دریں اثناء وزیراعلیٰ خیبر پی کے نے بھی جاں بحق بچوں کے لواحقین کے لئے 5، 5 لاکھ جبکہ زخمیوں کیلئے 2 لاکھ فی کس امداد کا اعلان کیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب پوری قوت سے جاری رہے گا۔ دشمنوں کیلئے ایک پیغام ہونا چاہئے کہ ہم اپنی سرزمین کو اس لعنت سے چھٹکارا دلائیں گے۔