سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت‘ عمر قید معطل کر دی
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ بی بی سی) سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس سے سنائی جانے والی 6 مجرمان کی سزائے موت معطل کر دی، اس حوالے سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر نے درخواست دائر کی تھی جس کی سماعت بھی 18ویں اور21 ویں آئینی ترامیم کے خلاف دائر درخواستوں کے ساتھ کی گئی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 22 اپریل تک ملتوی کر دی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا پتہ ہی نہیں چلتا کیا ہو رہا ہے، ملٹری کورٹس سے سزائے موت کے فیصلے آنے کے بعد مجرموں کو پتہ چلے وہ بے گناہ ہیں تو اس سے کوئی فائدہ نہیں انہیں تو سزا ہو چکی ہو گی، کیس کے فیصلہ تک کسی سزائے موت کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جائے جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا اس بات کی کیا گارنٹی ہے اچانک پتا چلے مجرم کی اپیل منظور ہو گئی ہے مگر پھانسی دی جا چکی ہو؟چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17 رکنی فل کورٹ نے آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے موقف اختیار کیا فوجی عدالتوں اور21 ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے عدالت سے استدعا ہے کیس کا فیصلہ ہونے تک ملٹری کورٹس کی سزائوں پر عمل درآمد کو روکنے کے لئے عدالت حکم امتناعی جاری کرے، فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل درآمد کو روکا جائے۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے سزائیں معطل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا عدالت کا ایسا کوئی حکم پارلیمنٹ کی 21 ویں آئینی ترمیم کیخلاف حکم امتناعی دینے کے مترادف ہو گا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ماضی میں فوجی عدالتوں کیخلاف شیخ لیاقت حسین کیس کا فیصلہ آیا جس میں ملٹری کوٹس کو غیرقانونی قرار دیا گیا مگر اس وقت تک دو افراد کو سزا دی جا چکی تھی کیا اس بات کا کوئی ازالہ ہو سکتا ہے؟ چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا فوجی عدالتوں میں ٹرائل عام ٹرائل سے مختلف ہوتا ہے، اس حوالے سے میڈیا میں بھی خبریں بعد میں آتی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا انہوں نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ ملزموں کے لواحقین کے حلف نامے جمع کرائے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ان کو ٹرائل میں دفاع کا حق نہیں دیا گیا۔ اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ایک مجرم کو آج پھانسی ہو یا 30دن بعد اس سے حکومت کو کیا فرق پڑتا ہے حکومت کی اس میں کیا دلچسپی؟ بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کر لی۔ 18ویں سے 21 ویں آئینی ترامیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت میں ایک درخواست گذار ندیم احمد ایڈووکیٹ کی جانب سے ان کے وکیل اکرم شیخ کی جگہ اے اوآر پیش ہوئے۔ عدالت نے وکیل کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کیا کہ انہیں اتنے اہم کیس میں خود پیش ہونا چاہئے تھا۔ دوران سماعت ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی کے وکیل اکرام چودھری نے عدالت سے مقدمہ التوا کی استدعا کرتے ہوئے کہا ان کی تیاری مکمل نہیں عدالت کچھ مہلت دے۔ مقدمہ کے ایک اور درخواست گزار بیرسٹر ظفراللہ کے دلائل جاری تھے کہ کورٹ میں اطلاع آئی بنچ کے جج جسٹس اعجاز احمد چودھری کی اہلیہ کو دل کا دورہ پڑا ہے جس پر فوری طور پر مقدمہ کی سماعت روک دی گئی۔ بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے ملک میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم کی گئی فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی جانے والی سزائیں معطل کر دی ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر متفرق درخواست میں کہا گیا تھا حال ہی میں فوجی عدالتوں کی طرف سے سات ملزموں کو دی جانے والی سزا پر عمل درآمد کو اس وقت تک روک دیا جائے جب تک ان عدالتوں کے خلاف دائرشدہ درخواستوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ فوجی عدالتوں نے رواں ماہ کے آغاز میں چھ افراد کو سزائے موت اور ایک کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے 18ویں اور 21ویں آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ درخواست گزار کی وکیل عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا فوجی عدالتوں سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا پارلیمنٹ کی طرف سے بنایا گیا کوئی بھی قانون آئین کے بنیادی ڈھانچے اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہو تو سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل نے کہا آرمی ایکٹ کے تحت سزا پانے والوں کے پاس اپیل کا حق ہے۔ ان کا کہنا تھا آئینی ترمیم کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا اس لئے ان درخواستوں کو خارج کیا جائے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا حکومت کو ان سزاؤں پر عمل درآمد کی کیا جلدی ہے اور کیوں نہ انھیں کچھ عرصے کے لیے موخر کر دیا جائے۔ جواب میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا فوجی عدالت سے سزا پانے والوں کو آرمی ایکٹ کی شق 133 بی کے تحت اپیل کا حق حاصل ہے جسے وہ استعمال کر سکتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا ان افراد کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائی کے بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں اور انھیں سزا ملنے کی خبر بھی میڈیا کے ذریعے معلوم ہوئی۔ ان کا کہنا تھا ایسی صورت حال میں یہ یقین کیسے ہو ان کے خلاف مقدموں کی کارروائی منصفانہ تھی اور یہ کہ ان کی اپیل پر بھی قانون کے مطابق کارروائی ہوگی یا نہیں۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ جو کارروائی ہوئی وہ قانون کے مطابق تھی یا نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ ماضی میں بھی فوجی عدالتوں کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے اور ماضی میں جب فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلہ دیا گیا تو اس وقت تک دو افراد کو پھانسی دی جا چکی تھی۔ انہوں نے استفسار کیا کیا گارنٹی ہے اچانک پتہ چلے کہ اپیل خارج ہونے کے بعد پھانسی دی جا رہی ہے۔ سماعت کے بعد عدالت نے فوجی عدالت سے سزا پانے والوں کی سزا پر عمل درآمد روکنے کا حکم دیا اور کہا فوجی عدالتوں کے معاملے پر حتمی فیصلہ آنے تک یہ سزا معطل رہے گی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق اس وقت ملک میں نو فوجی عدالتیں کام کر رہی ہیں جن میں سے صوبہ خیبر پی کے اور صوبہ پنجاب میں تین تین، جبکہ سندھ میں دو اور بلوچستان میں ایک فوجی عدالت قائم ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق دوران سماعت سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے دی گئی سزائوں پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا۔ عدالت کا کہنا تھا پہلے 18ویں اور پھر 21ویں آئینی ترمیم پر سماعت کی جائے گی۔ حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل نے کہا فوجی عدالتوں کا ٹرائل خفیہ نہیں ہو رہا، جن لوگوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چل رہا ہے ان کے لواحقین ٹرائل سے باخبر ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا فوجی عدالتوں کی سزائے موت پر عمل ہو گیا تو درخواستیں خارج ہونے پر اس نقصان کا ازالہ نہیں ہو سکے گا۔ سپریم کورٹ نے 18ویں اور 21ویں آئینی ترامیم سے متعلق درخواستوں پر سماعت 22 اپریل تک ملتوی کر دی۔