غداری کیس: وزیراعظم کے دفتر سے ایڈوائس اور مشاورت کے شواہد نہیں ملے‘ ثبوت صرف مشرف کیخلاف ہیں: وکیل استغاثہ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں) مشرف کے خلاف غداری کیس میں پراسیکیوٹر اکرم شیخ کے جوابی دلائل ختم ہونے کے بعد عدالت نے وکیل دفاع کی استدعا پر کیس کی مزید سماعت 24اپریل تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے قرار دیا کہ آئندہ کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی جبکہ پراسیکیوٹر کی تقرری سے متعلق کیس کا فیصلہ 18اپریل کو خصوصی عدالت میں ساڑھے گیارہ بجے سنایا جائے گا۔ اکرم شیخ نے تحریری جوابی دلائل عدالت جمع کرواتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ایمرجنسی کے احکامات میں جن افرادکا تذکرہ کیا گیا ان کیخلاف شواہد پیش کرنا مشرف کی ذمہ داری ہے، شہادتوں کے بعد ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کی فراہمی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے مگر آئین و قانون کے مطابق اس کی نقل عدالت کو تو فراہم کی جاسکتی ہے وکیل دفاع کو نہیں، 3نومبر سے 14دسمبر 2007ء تک کے تمام شواہد شکایت کا حصہ ہیں، سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے دفتر سے ایمرجنسی کے نفاذ کیلئے مشاورت یا ایڈوائس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ مشرف نے شوکت عزیز کی ایڈوائس پر ایمرجنسی لگائی یہ فرد واحد کا ذاتی فعل تھا۔ وزارت داخلہ وفاقی حکومت کا حصہ ہے آئین کے مطابق سیکرٹری داخلہ غداری کیس میں شکایت کے اندراج کی مجاز اتھارٹی ہے اداروں کا عزت و احترام ہونا چاہیے۔ آئین کے آرٹیکل 9,10 اور 19کے تحت یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین شکنی کرنے والوں کے خلاف ٹرائل کرے یہ اس کی آئینی ذمہ داری ہے جس کے بارے میں سوال کیا جاسکتا ہے۔ ایمرجنسی کے نفاذ میں معاونت کرنے والے شریک کاروں کے عہدے کافی ہیں ناموں کی ضرورت نہیں کیس کے دستاویزات سوائے ملزم کے کسی کو دینے کے پابند نہیں لیکن وہ بھی مناسب وقت پر، میری درخواست کے پہلے حصے میں ملز م کو فرد واحد کی حیثیت سے ٹرائل کرنے کی استدعا کی گئی ہے 7مارچ 2014ء سے متعلق پیراگراف 48,49,52 میں ہر چیز تفصیل سے بیان کی گئی ہے، غداری کیس میں جس کے خلاف ٹھوس مواد اور ثبوت ہونگے اُس کے خلاف کیس ٹرائل ہوگا ہر چیز شواہد پر منحصر کرتی ہے ملزم پرویز مشرف سیکرٹری داخلہ کو درخواست دے سکتے ہیں کہ یہ اشخاص میرے شریک کار ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی کرتے ہوئے ان کے نام بھی ملزمان میں شامل کیے جائیں۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ تمام دستاویزات مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ 14دسمبر 2013ء سب کچھ مشرف کو دیئے ہیں۔ ان کے وکیل انور منصور نے مذکورہ دستاویزات وصول کی ہیں جس کی دستخط شدہ رسید موجود ہے۔ اس پر جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ اگر عدالت کسی ملزم کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو اس کے لیے دستاویزات کا موجود ہونا لازمی ہے یہ بات ایک شخص کیلئے بھی کی جاتی ہے، اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ میں حسین اصغر نے اضافی نوٹ لکھا ہے میں نے کاغذات فریقین کے حوالے کر دیئے تھے چارج میں 204 گواہوں کی لسٹ بھی پیش کی تحقیقاتی ٹیم کے ممبر کیس میں بطور گواہ بھی ہیں تمام ثبوت اور شواہد سمیت کوئی چیز خفیہ نہیں جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی۔ اکرم شیخ کا مزید کہنا تھا کہ آئین میں یہ کہاں لکھا ہے کہ مقدمے کا مکمل ریکارڈ ملزم اور وکیل دفاع کو فراہم کیا جائے عدالت وزارت داخلہ سے سیل بند جے آئی ٹی رپورٹ طلب کر سکتی ہے جن افراد سے تفتیش کی گئی اس کی لسٹ فراہم نہیں کی جاسکتی ہم پر الزام ہے کہ میڈیا سے معاونت لے رہے ہیں یہ غلط ہے، کچھ ریکارڈ عدالت میں جمع کرایا گیا ہے۔ خصوصی عدالت کا اختیار ہے کہ وہ کیس میں کسی بھی ملوث شخص کو سمن جاری کرتے ہوئے طلب کر سکتی ہے۔انہوں نے قانون شہادت ایکٹ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ فاضل عدالت گواہوں سے جرح کا اختیار رکھتی ہے۔ اکرم شیخ کے جوابی دلائل مکمل ہونے کے بعد فروغ نسیم نے کہا کہ مقدمے کا دستاویزی مواد اُن کے پاس نہیں ہے بین الااقوامی قوانین پر مبنی ریکارڈ اور کتابیں کراچی میں ہیں عدالت سے استدعا ہے کہ کیس کی سماعت 24اپریل تک ملتوی کر دی جائے جبکہ پراسیکیوٹر کے جوابی دلائل پر مبنی تحریری مواد بھی دیر سے ملنے کی وجہ سے تیاری نہیں کی جاسکی انہوں نے موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر مبنی کلاسیفائیڈ رپورٹ پہلے ہی پبلک ہو چکی ہے ایک سینئر صحافی نے اسے دیکھا بھی ہے۔ میڈیا کو مل سکتی ہے تو ہمیں کیوں نہیں۔ ہمیں شفاف ٹرائل کا موقع فراہم کیا جائے اکرم شیخ نے کیس میں ایک ہفتہ التواء دینے کی مخالفت کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔ بی بی سی کے مطابق جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ اس مقدمے میں ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ اب تک عدالت میں پیش کیوں نہیں کی گئی جس پر چیف پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ جلد ہی اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی جائے گی۔ تاہم اْنہوں نے اس کی کاپی ملزم کے وکیل کو دینے سے مغدوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس سنگین مقدمے میں تحقیقاتی رپورٹ کی نقل وکیل صفائی کو نہیں دی جا سکتی۔ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ سابق فوجی صدر کے وکیل ایف آئی اے کے جس افسر کا بیان طلب کر رہے ہیں وہ اس مقدمے میں بطور گواہ بھی پیش ہوگا اس لئے ایسے حالات میں رپورٹ کی نقل فراہم نہیں کی جاسکتی۔ بینچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے وکیل استغاثہ سے استفسار کیا کہ مقدمے کی تحقیقات کی نقول حاصل کرنا ملزم کا حق ہے اور اْنہیں کیسے اس بنیادی حق سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ ملزم کے وکیل اْن افراد کے ناموں کی فہرست بھی طلب کر رہے ہیں جن سے تحققیاتی ٹیم نے بیانات لئے ہیں۔ جوائنٹ سیکرٹری داخلہ بند لفافہ میں ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کی نقل لے کر عدالت میں پہنچ گئے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ مشرف کے حق میں بھی کوئی دستاویز ملی تو عدالت کے سامنے رکھوں گا، مجھے تو تحقیقاتی رپورٹ کے مندرجات کا بھی علم نہیں، ابھی جوائنٹ سیکرٹری داخلہ رپورٹ لے کر آئے ہیں۔ سیکرٹریر داخلہ کو ایس ایم ایس کیا عدالت نے طلب کیا تو رپورٹ براہ راست پیش کریںگے۔ اگر عدالت چاہے تو وہ پیش کریں گے۔ سماعت کے آغاز پر پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ کیا عدالت نے آرٹیکل 6 کا 1956ء سے ٹرائل شروع کرنے کی ان کوئی استدعا مسترد کی ہے اگر ایسا ہے تو انہیں عدالتی حکم کی نقل فراہم کی جائے تاکہ وہ تحریری وضاحت کر سکیں، جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ عدالت نے ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا۔