جوڈیشری آپ کی بزرگ ، خلاف فیصلہ ہو تو گالیاں نہ دیں، ؛"بابا" کسی پلان کا حصہ ہے نہ بنے گا؛ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے والا ابھی پیدا نہیں ہوا: چیف جسٹس
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ ہم نے آئین اور جمہوریت کے تحفظ کی قسم کھا رکھی ہے۔ججز آئین، قانون اور ضمیر کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ کوئی پیدا نہیں ہوا جو ہم پر دباﺅ ڈالے یا فیصلوں کےلئے پلاننگ کرے۔ عدلیہ پر کوئی دباﺅ نہیں۔ اگر کسی کا دباﺅ چلتا ہوتا تو حدیبیہ کیس کا فیصلہ اس طرح نہ آتا جو آیا۔ فیصلوں پر تبصرے کرنے والوں کو حقیقت کا علم نہیں ہوتا ”انصاف تک رسائی میں مشکلات اور اس کا حل“ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے جتنے بھی فیصلے کئے وہ آئین اور قانون کے مطابق ہیں۔یقین دلاتا ہوں کہ ہم آئین کا تحفظ کریں گے۔ ہمارے نظام میں تاخیر سب سے بڑی خرابی ضرورہے۔انہوں نے حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ہونے والے تبصروں کے تناظر میں کہا کہ آپ کے خلاف بھی فیصلہ آ جائے تو عدلیہ کو گالیاں نہ دیں۔عدلیہ کو جمہوریت اور جمہوری اداروں کی اہمیت کا ادراک ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت ہے تو آئین ہے اور آئین ہے تو ریاست ہے۔ قسم کھا سکتا ہوں کہ عدالت پر اندورونی اور بیرونی کوئی دباﺅ نہیں۔ جوڈیشری ریاست کا وہ بزرگ ہے جو رجوع کرنے پر آئین اور قانون کے تحت فیصلے کرتا ہے۔مگر کسی کے خلاف فیصلہ آنے پرےہ تاثر کیسے دے دیا جاتا ہے کہ عدالتوں پر دباﺅ ہے۔ عدالتیں کسی پلاننگ کا حصہ نہیں۔ہمارا یہ ادارہ آپ کا بزرگ ہے، گاﺅں کے لوگ جانتے ہیں کہ وہاں پر ایک چاچا رحمت ہوتا ہے جس کی سارا گاﺅں عزت کرتا ہے اور اس سے فیصلہ کراتا ہے، جس کے خلاف فیصلہ آئے وہ بابے کو گالیاں نہیں نکالتا۔ عدلیہ کی عزت پر شک نہ کریں۔ پلان کہاں سے آ گئے۔ عدلیہ میں ججز کےلئے اپنے منصب سے بڑی اور کوئی عزت نہیں۔میں اپنے بچوں کو شرمندگی کے ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کیس میں میں نے پارلیمنٹ کی برتری مانی۔ریاست کے سارے کام جمہوریت کے ساتھ جڑے ہیں۔ ادارے کو مضبوط کرنے میں ہمارا ساتھ دیں۔مبصرین فیصلہ پڑھے بغیر اپنی رائے دیتے رہتے ہیں۔ جن کا ہمیں بھی پتہ نہیں ہوتا۔کل کے فیصلے میں ایک تکنیکی غلطی تھی جس کو ہم نے ٹھیک کیا۔ ہم جج آزاد ہیں۔ عدلیہ میں کوئی تفریق نہیں۔ ہر جج اپنے ذہن اور قانون کے مطابق فیصلہ دینے میں آزاد ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی کچرے سے سپریم کورٹ کی لانڈری کی جان چھوٹے تو باقی عام آدمی کے مقدمے بھی دیکھیں۔ہمارے لئے عام شہریوں مائی بھاگاں،نور محمد،غلام رسول اور رحمت اللہ وغیرہ کے وہ مقدمے اہمیت کے حامل ہیں جن کا تین مرلے کا مکان ہی ان کی کائنات ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے امریکی جج کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی کچرے کو عدلیہ کی لانڈری میں ڈرائی کلین نہ کیا جائے تو بہتر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل سائلین سے بہت زیادہ فیس وصول کرتے ہیں۔آج ہی وکلاءآدھی فیس لینے کا اعلان کر کے اپنے سائلین کےلئے لوٹ سیل لگا دیں۔انہوں نے وکلاءسے کہا کہ موکلوں سے اڑھائی اڑھائی کروڑ فیس لی جا رہی ہے۔کیا یہ وکالت ہے کہ کیس بنتا ہی نہ ہو اور فیس کےلئے کیس کا مشورہ دیا جائے۔ میں اپنی بڑائی بیان نہیں کرتا۔ میں صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک دفتر میں رہتا ہوں۔پھر اگلے روز کے مقدمات کی فائلیں دیکھتا ہوں۔ نیند کےلئے 3سے 4گھنٹے وقت رہتا ہے۔ انصاف کی فراہمی کےلئے وکلاءپر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہم شاید وہ معیاری انصاف نہیں دے پارہے جو سائلین کا حق ہے۔ جج کی ڈیوٹی ہے قوم کی محبت کا قرض ادا کرے، جج کا دیکھیں کتنا استحصال ہورہا ہے، ججز کو چیمبرز میں جا کر گالیاں دینا کہاں کا شیوہ ہے، یہ کہاں کے پڑھے لکھے لوگوں کا کردار ہے۔ ایک خاتون سول جج کو چیمبر میں جاکر گالیاں دینا کہاں کا شیوہ ہے۔ ہم اپنے بزرگوں کے سامنے بات نہیں کرتے تھے۔ میں عدلیہ اور وکلاءکا بڑا بھائی ہونے کے ناطے کہہ رہا ہوں۔دونوں کو عزت دینا ہو گی۔ میں تمام غلطیوں کو مانتا ہوں اور آپ سے طلب گار ہوں کہ میرا ساتھ دیں تاکہ اصلاحات لائی جاسکیں۔ مجھے سینئر ججز اور وکلاءسے اس معاملے کو حل کرنے کےلئے تعاون چاہیے۔ کبھی دھرنے اور کبھی کرکٹ میچ جیتنے کی وجہ سے ہڑتال کر دی جاتی ہے۔ میری زندگی بطور وکیل اور جج گزری۔ فیصلوں میں تاخیر نااہل ججز کی وجہ سے بھی ہوئی ہے۔ قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ججز کی ذمہ داری ہے، ہمارے ججز کےلئے اچھا ٹریننگ پروگرام ہونا چاہیے، جوڈیشل اکیڈمی کو ایکٹیویٹ کرنا چاہیے تا کہ ججز سے غلطیاں کم سے کم ہوں، مجھے احساس ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں کچھ تعیناتیاں مشکوک ہیں۔ جب سے نیا جوڈیشل کمیشن میری سربراہی میں کام کر رہا ہے ہم بار سے ججز کے بارے میں پہلے رائے لیتے ہیں اورپھر میں ججز سے بعد میں رائے لیتا ہوں، جہاں تک قابلیت کا تعلق ہے تو جج کا باکردار ہونا سب سے زیادہ ضروری ہے، دوسرا قانون کا علم اور تیسرا اس کا کنڈکٹ ہے۔میں نے ہر چیف جسٹس کو کہا ہے کہ اپنے ساتھیوں کی رائے کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتیاں کریں۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے ایسا کرنا شروع کیا اور پھنس گئے۔ ہر بندے نے اپنے پیارے کا نام دے دیا کہ اس کو جج بھرتی کر دیں، جب ہم نے لسٹ دیکھی تو سیٹیں کم اور امیدوار بہت زیادہ تھے، جن کے امیدوار ہم نے نہیں رکھے ان کی عزت مجروح ہو گئی، میری مخالفت بھی ہوگی۔ مجھے پتہ بھی ہے کہ میری مخالفت کرنے والے کون ہیں۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ بار کے بابوں سے مشاورت کریں اور بابے ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنے کسی بندے کو جج نہیں لگوانا۔ ایسی ہی مشاورت ہمیں منظور ہے۔ میں ہر کام کو مانیٹر کرتا ہوں اور ان کے فیصلوں کو ہم لوگ باریکی سے دیکھتے ہیں۔ ہمیں قوم کا حق ادا کرنا ہے، ہمارے بہت سارے فیصلوں میں تضاد بھی ہوگا۔ یہ بار اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کو ریویو کریں۔ ہم اگر کہیں غلط ہیں تو ان کی اصلاح ہمارا فرض ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ججوں پر دباﺅ ڈال کر فیصلے کرانے والا پیدا نہیں ہوا، عدلیہ کا وقار شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ جانبدار ہوتے تو حدیبیہ کا فیصلہ مختلف ہوتا بعض معاملات میں ججوں کو نامعلوم فون آتے ہیں، آئین اور جمہوریت کے تحفظ کی قسم کھا رکھی ہے۔ عدلیہ آزاد ہے ہر جج آزاد ہے۔ ہمارے نظام میں تاخیر سب سے بڑی خرابی ہے۔ ہم نے پارلیمنٹ کی سپر میسی اور حدود قیو دکو تسلیم کیا ہے۔ اگر ملک میں جمہوریت نہیں ہے تو پھر اللہ نہ کرے آئین نہیں ہے، میں نے اور میرے ساتھیوں نے آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔ وکلا ءلاکھوں، کروڑوںروپے فیس کا تقاضہ کرتے ہیں ¾یہ کہا جاتا ہے کہ میری جج صاحب سے بات ہو گئی ہے، تین کروڑ میں سودا ہو گیا ہے بتایا جائے کون اس کا مداوا کرےگا۔ وکلا فیسوں کے بجائے کیسز پر توجہ دیں۔ انہوںنے کہا کہ بارز اور عدلیہ دونوں کو ظرف اور تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا میں عدلیہ یا بارز کے نمائندے کی حیثیت سے بات نہیں کر رہا بلکہ دونوں کا بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے بات کر رہا ہوں۔ضلعی عدلیہ کے لئے اکیڈمی کو متحرک کیا جائے۔ میں بابانگ دہل کہتا ہوں کہ کوئی غلط تعیناتی کروں گا اور نہ ہونے دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو رولز کو دیکھ رہی ہے ان کا تجزیہ کر رہی ہے۔ میں بارز کی قیادت سے بھی کہوں گا کہ وہ اپنی اپنی کمیٹی بنائیں ورکشاپس کرائیں اور تین مہینوں کے اندر اصلاحات، تاخیر، وجوہات اور تاریخ دینے کے حوالے سے تجاویز دی جائیں۔