اسحاق ڈار کی احتساب عدالت 8 گھنٹے طویل حاضری‘ نوازشریف‘ بیٹی اور داماد کی فرد جرم کیلئے آج پیشی والد نہیں آئیں گے : حسن
اسلام آباد (چودھری شاہد اجمل +نامہ نگار) اسلام آباد کی احتساب عدالت میں وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں نیب کی جانب سے دائر ریفرنس میں چوتھی مرتبہ پیش ہوگئے، جہاں استغاثہ کے مزید 2گواہان کا بیان ریکارڈ کیا گیا، استغاثہ کے گواہ نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی اہلیہ اور کمپنیوں کے 5 بینک اکاﺅنٹس کی تفصیلات عدالت میں پیش کردیں جبکہ وزیرخزانہ کے وکیل نے عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات پر اعتراضات اٹھا دیئے ہیں ۔ 8گھنٹے طویل سماعت کے دوران دو گواہان کے بیان قلمبند کرنے کے بعد ان پر جرح مکمل کرلی گئی ہے، تاہم ایک گواہ سے ای میل کا ریکارڈ طلب کیا گیا ہے جس پربحث ای میل کا ریکارڈ آنے کے بعد ہوگی، عدالت نے مقدمہ کے چوتھے گواہ کو16اکتوبرکے روز طلب کرلیا ہے۔ سماعت شروع ہوئی تو پہلے استغاثہ کے گواہ طارق جاوید کا بیان قلمبند کیا گیا گواہ کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ البرکہ بنک سے 1999سے وابستہ ہوں۔ نیب لاہور کو تبسم ڈار کے اکاونٹ کی تفصیلات فراہم کیں اورتبسم ڈار کے اکاونٹ اوپن کروانے سے متعلق فارم نیب کے حوالے کیا۔اس دوران گواہ طارق جاوید نے بنک اکاﺅنٹ کی تفصیلات عدالت کوبھی فراہم کردیں۔ فاضل جج محمد بشیرکا کہنا تھا کہ بے نامی دار کو نوٹس ہونا چاہیئے تاکہ بے نامی دار کو علم تو ہو کہ اس کی جائیداد زیر بحث ہے جس پر خواجہ حارث نے کہاکہ ایسی کوئی بے نامی جائیداد نہیں ہے اگر اس حوالے شواہد ملیں تو پھر بلا لیں۔ خواجہ حارث نے نیب کی جانب سے جمع کرائی گئی دستاویزات پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ ریفرنس میں شامل بعض دستاویزات نہیں مل رہیں اب آپ دستاویزات ڈھونڈیں گے تو وہ ملیں گے نہیں جس پر فاضل جج کا کہناتھا کہ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں کیونکہ فارم اتنی متنازعہ چیز نہیں ہے، اس دوران نیب کے وکیل نے کہاکہ ھم فارم کو ڈھونڈ لیں گے۔ جس پر خواجہ حارث نے کہاکہ یہ تو بہت متنازعہ ہے وہ ان کے ہاتھ میں ہیں اور جرم ان کو ثابت کرنا ہے۔اس دوران دستاویزات مکمل نہ ہونے پر نیب وکیل نے سماعت میں پندرہ منٹ کا وقفہ کرنے کی استدعاکرتے ہوئے کہاکہ دستاویز میں ایک صفحہ مسنگ ہے وہ نئی درخواست کے ساتھ جمع کرادینگے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ قانون کے مطابق ایک دستاویز آنے کے بعد اضافی دستاویز نہیں آسکتے۔ فاضل جج کا کہنا تھا کہ نئی درخواست کے ساتھ مسنگ دستاویز شامل کی جائیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جناب 2006سے اس بنک اکاﺅنٹ میں کوئی ٹرانزیکشن نہیں ہوئی۔گواہ طار ق جاوید کا کہنا تھا کہ اکتوبر 2000کے بنک اکاﺅنٹ کی سٹیٹمنٹ شروع ہوئی ۔نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق کا کہنا تھا کہ گواہ کی شہادت کو ابتدائی شہادت کے طور پر لیا جائے اور اس ثبوت کو پرائمری ثبوت کے طور پر عدالت قبول کرے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ الیکٹرانک سٹیٹمنٹ کو بطور پرائمری ثبوت نہیں لیا جاسکتا۔ ہمارے اعتراضات کو ریکارڈ کا حصہ بنایاجائے ۔ گواہ کا مزید کہنا تھا کہ بنک سٹیٹمنٹ صفحہ 35سے 39تک فوٹو کاپی پر مشتمل ہے۔ پراسیکیوٹر نیب نے کہاکہ وکیل صفائی کا اعتراض درست نہیں ۔ جس پر فاضل جج نے آبزرویشن دی کہ تصدیق شدہ کاپی منگوانے کا حکم دے دیتے ہیں۔اسحاق ڈار کے وکیل نے گواہ کے ریکارڈ پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہاکہ دیکھنا ہے کہ تصدیق شدہ کاپی کا ثبوت موجود ہے کہ نہیں اور اس ضمن میں الیکٹرانک ٹرانزیکشن ایکٹ 2000کی شق 12کا حوالہ ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے ہم نے عدالت عظمی میں بھی کہاتھا اس طرح کیس دو دن میں ختم ہو سکتا ہے اس ریکارڈ پر عدالت کیس چلانا چاہے تو چلالیں۔ گواہ کا کہنا تھا کہ بنک کے حکم پر نیب لاھور میں تفتیشی افسر کو اکاﺅنٹ کی تصدیق شدہ کاپیاں فراہم کیں اور ہجویری مضاربہ کے اکاﺅنٹس عبدالرشید ، نعیم محبوب اور ندیم بیگ آپریٹ کررہے تھے اس ضمن میں بھی نیب کو بنک اکاﺅنٹس کی تفصیلات فراھم کیںگواہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہجویری ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کے بنک اکاﺅنٹس کی تفصیلات بھی نیب کو فراھم کیں۔اس دوران گواہ طارق جاوید نے تیسرے بنک اکاﺅنٹ کی تفصیل بھی عدالت میں پیش کرتے ہوے کہاکہ تیسرا بنک اکاﺅنٹ ہجویری ہولڈنگ پرائیویٹ کے نام پر کھولا گیا۔ گواہ کا کہنا تھا کہ پہلا اکاﺅنٹ تبسم اسحاق ڈار، دوسرا ہجویری مضاربہ اور تیسراہجویری ہولڈنگ پرائیویٹ کے نام پر کھولا گیا۔اس دوران گواہ کی جانب سے بنک اکاﺅنٹ کھلوانے کا فارم عدالت میں پیش کر دیا گیا اوربنک ٹرانزیکشن کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کی گئیں۔ گواہ نے بنک کورنگ لیٹر بھی عدالت میں پیش کر دیاتو خواجہ حارث نے کہاکہ انہیں گواہ کی دستاویز پر اعتراض ہے کیونکہ تصدیق شدہ دستاویزات فراہم نہیں کی گئیںیہ دستاویزات تو کوئی بھی تیار کر سکتا ہے۔ جس پر فاضل جج نے کہاکہ ایسی بات نہیں ۔ یہ بنک کے دستاویزات ہیں۔اس دوران گواہ طارق جاوید کاکہنا تھا کہ انہوں نے یہ تفصیلات 23اگست 2017کو نیب تفتیشی افسر کو فراہم کیں، کمپنی کے ڈائریکٹر کی فہرست اور میمورنڈم بھی جمع کرایا، گواہ کی جانب سے چوتھے بنک اکاونٹ ہجویری مضاربہ مینجمنٹ کی تفصیل بھی عدالت میں پیش کی گئی اورکمپنی کے بنک اکاونٹ کے ساتھ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کی تفصیل بھی عدالت میں پیش کی گئی۔
گواہ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے تمام درست حقائق تفتیشی کو بتائے کوئی بات مخفی نہیں رکھی یہ بھی بتایا کہ اسحاق ڈار کے بچوں کابینک میں کوئی اکاﺅنٹ نہیں جبکہ اسحاق ڈار کا بھی بینک میں ذاتی اکاﺅنٹ نہیں ہے۔ اس دوران مختصر وقفہ کردیا گیا جس کے بعد استغاثہ کے دوسرے گواہ طارق جاوید کے بیان پر جرح کاآغاز ہوا توخواجہ حارث نے گواہ سے سوال کیا کہ جب آپ نیب کے پاس پیش ہوئے تو کیاآپ کا بیان ریکارڈ کیا گیا؟جس پر انہوں نے جواب دیاکہ میرا 17اگست 2017 کو نیب میں کوئی بیان ریکارڈ نہیں ہواتاہم تفتیشی افسر نے 30اگست 2017کو میرا بیان ریکارڈ کیااور میں نے تفتیش افسر سے کوئی بات نہیں چھپائی تاہم میں نے تفتیشی افسر کو نہیں بتایا کہ بنک اکاﺅنٹ تین افراد آپریٹ کررہے ہیں۔ اس دوران عدالت نے نجی بینک کے ایس وی پی طارق جاوید کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر اس ای میل کا پرنٹ ساتھ لے کر آئیں جوانہوں نے ریکارڈ لینے کیلئے بینک کو بھجوائی تھی۔ وقفہ کے دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈا ر نے ظہر کی نماز کمرہ عدالت میں ادا کی۔ وقفے کے بعد منیجر قومی سرمایہ کاری ٹرسٹ شاہد عزیز بطور گواہ احتساب عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار نے اگست ستمبر 2015میں بنک میں 12کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی اور جنوری 2017میں اسحاق ڈار نے اپنی رقم واپس لے لی اوراسحاق ڈار کو ساڑھے تین کروڑ روپے منافع کے ساتھ رقم واپس کی گئی، شاہد عزیز کا مزید کہنا تھا کہ مجموعی طور پر اسحاق ڈار کو ساڑھے پندرہ کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی، اسحاق ڈار نے یہ رقم بنک الفلاح لاہور میں جمع کروا دی، شاہد عزیز نے بتایا کہ اسحاق ڈار کے بنک اکانٹس کی مصدقہ نقول جمع کرا دی ہیں۔ اس دوران اسحاق ڈار کے وکیل خواجہ حارث نے جرح کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ جو سرمایہ کاری کی گئی کیا آپ کے ریکارڈ کے مطابق اس میں بے قاعدگی پائی گئی اور جو سرمایہ کاری کی گئی اس پر جو منافع دیا گیا کیا وہ ٹیکس کاٹ کر دیا گیا ۔ اس پر شاہد عزیز کا کہنا تھا کہ جی ہاں ٹیکس کاٹ کر منافع دیا گیا ۔ خواجہ حارث نے سوال کیاکہ کیا جو سرمایہ کاری کی گئی اس رقم کی ادائیگی بینکوں کے ذریعے کی گئی۔ شاہد عزیز نے جواب دیا کہ اسحاق ڈار کوادائیگی کراس چیک کے ذریعے کی گئی اور رقم بمعہ منافع الفلاح بینک میں اسحاق ڈار کے اکاﺅنٹ میں بھیجی گئی ۔ شاہد عزیزنے کہاکہ تین اصلی فارم موجود تھے ان کی نقول فراہم نہیں کیں تاہم کراچی سے آنے والی نقول نیب کو فراہم کیں۔ خواجہ حارث نے کہاکہ اصل دستاویز میں بعد میں تبدیلی کی گئی یہ بہت بڑا فراڈ ہے، کیونکہ اصل دستاویز اور عدالت میں پیش کی گئی فوٹو کاپی میں فرق ہے، اس پر فاضل جج محمد بشیرنے کہاکہ پہلے لاہور لکھا تھا پھر اسلام آباد لکھا گیاپھر کاٹ کر لاہو لکھا گیا ، خواجہ حارث نے سوال اٹھایا کہ اصل دستاویز کب ، کیسے اور کیوں ٹمپر کی گئی؟گواہ نے کہاکہ اصل دستاویز میں غلطی کی تصحیح کی جو معمول کی بات ہے،تاہم فارم پر درج رقم میں کوئی غلطی یا تبدیلی نہیں کی، خواجہ حارث نے سوال اٹھا یا کہ اصل دستاویز میں لاہور لکھا تھا یا اسلام آباد ؟ فارم کے مندرجات کس نے لکھے، شاہد عزیز کا کہنا تھا کہ نام اور دستخط کے علاوہ باقی تمام مندرجات کسی ایک شخص کے تحریر کردہ ہیں اور فارم پر دستخط اسحاق ڈار نے کئے،جبکہ فارم ادارے کے افسر نے بھرا۔ تیسرے گواہ پر جرح مکمل ہوئی تو عدالت نے آئندہ سماعت پر گواہ مسعود غنی طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 16 اکتوبر تک ملتوی کردی۔ یاد رہے کہ گزشتہ سماعت میں پر نجی بنک کے افسر اشتیا ق علی نے اپنا بیان قلمبند کرا یا جبکہ دو گواہان نے جمعرات کو بیان قلمبند کرایا ۔ دوسری جانب عدالت کے اندر اور باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کے حوالے سے پولیس اور ایف سی کے 200اہلکار تعینات کئے گئے تھے ۔وزرا اور مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز، انوشہ رحمان اور طارق فضل چوہدری احتساب عدالت میں موجود تھے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی اسلام آباد کی احتساب عدالت میں 8گھنٹے اور 9 منٹ کی طویل پیشی ہوئی۔احتساب عدالت میں شریف خاندان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے کیسوںکی یہ اب تک کی طویل ترین سماعت ہے۔اسحا ق ڈار پونے آٹھ بجے احتساب عدالت پہنچے اور سماعت کا اختتام 3بجکر 54منٹ پر ہوا اس دوران وزیر خزانہ عدالت کے اندر ہی موجود رہے ۔سماعت کے دوران اسحاق ڈار عدالت میں خاموش بیٹھے تسبیح پر ورد کرتے رہے۔ڈیڑھ بجے نماز کو وقفہ ہوا تو اسحاق ڈار نے عدالت میں ہی نماز ظہر ادا کی۔ سماعت کے دوران دو مرتبہ وقفہ ہوا ۔سماعت کے دوران عدالت میں موجود وزراءطارق فضل چوہدری ،انوشہ رحمان اور دانیال عزیز بار بار اٹھ کر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی قریبی نشست پر بیٹھ کر ان سے گفتگو کرتے رہے۔عدالت میں سماعت کے موقع پر وزرا مملکت طارق فضل چوہدری ،انوشہ رحمان اور دانیال عزیز سمیت بیرسٹر ظفراللہ بھی موجود تھے۔آئندہ سماعت پر طلب کیے گئے گواہ مسعود الغنی بی اے ایف ایل گلبرگ لاہور کے منیجر آپریشنز ہیں۔اس مقدمے میں استغاثہ کے کل28گواہ پیش ہو ں گے ۔ان میں لینڈ ریونیو زون فائیوکارپوریٹ ریجنل ٹیکس آفس لاہور،کیبنٹ ڈویژن اسلام آباد،الیکشن کمیشن آف پاکستان،وفاقی وزارت تجارت،قومی اسمبلی سیکرٹریٹ،ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ،موٹر رجسٹریشن اتھارٹی لاہور،البرکہ بینک گلبرگ لاہور،نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ،الائیڈ بینک لمیٹیڈ پارلیمنٹ ہاﺅ س اسلام آباد،ایچ ایم بی ایل ایڈگرٹن برانچ لاہور،حبیب بینک کیو بلاک اسلام آباد،بی اے ایف ایل گلبرگ لاہور،لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی،ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفس ماڈل ٹاﺅن لاہور،اسسٹنٹ کمشنر آفس تحصیل رائے ونڈ،لاہور،نادرا ہیڈ آفس اسلام آباد،الفلاح کواپریٹیو ہاﺅسنگ سوسائٹی لاہور،انڈسٹریریز ،پرائس،ویٹ اینڈ مژیرز ڈیپارٹمنٹ پنجاب،فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے)اسلام آباد،قومی احتساب بیوروہیڈ کوارٹر اسلام آباد،بینک الفلاح گلبرگ لاہور ، نیب لاہورکے8گواہان سمیت مجموعی طور پر 28گواہوں کو پیش کیا جائے گا۔
لاہور، لندن، اسلام آباد (فرخ سعید خواجہ، عارف چودھری، نامہ نگار) سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اپنی اہلیہ کلثوم کی علالت کے باعث مزید دو ہفتے کے قریب لندن میں رہیں گے۔ میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے فاضل عدالت سے میاں نواز شریف کی احتساب عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہونے سے استثنیٰ کی درخواست 9 اکتوبر کو دی تھی۔ میاں نواز شریف اپنی اہلیہ کی بیماری کی وجہ سے خاصے ڈسٹرب ہیں اور زیادہ سے زیادہ ان کی عیادت اور تیمارداری کیلئے صرف کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ترجمان آصف کرمانی نے کہا ہے کہ احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کو خواجہ حارث کی 9 اپریل کی درخواست پر پندرہ دن کیلئے حاضری سے استثنیٰ دیا ہے۔ علاوہ ازیں شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دائر ریفرنسز کی سماعت آج ہوگی، سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر پر آج فرد جرم عائد کی جائے گی جبکہ احتساب عدالت میں حسن نواز اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دینے کا نوٹس آویزاں کردیا گیا ہے۔ گزشتہ سماعت پر سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز احتساب عدالت میں پیش ہوئی تھیں اور ان کے شوہرکیپٹن (ر) صفدر کو نیب نے برطانیہ سے واپسی پر اسلام آباد ائیر پورٹ سے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا تھا۔ میاں نواز شریف اس پیشی پر عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے۔ عدالت نے 50,50 لاکھ کے مچلکوں کے عوض دونوں ملزمان کی نیب ریفرنسز میں ضمانت منظور کرتے ہوئے نوازشریف کی حاضری سے ایک روز کے استثنیٰ کی درخواست بھی منظورکرلی تھی تاہم عدالت کی طرف سے 15روز کا وقت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے تینوں ملزمان، نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو فرد جرم عائدکرنے کےلئے 13اکتوبرکو ہونے والی سماعت پر ذاتی حیثیت میں ہر صورت پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ عدالت نے نیب کی استدعا منظور کرتے ہوئے حسین نواز اور حسن نواز کو اشتہاری قرار دینے کا عمل شروع کردیا تھا، ملزمان کے وارنٹ بارے اشتہار اخبارات میں شائع کئے جائیں گے جس مین ان کو پیش ہونے کے بارے میں کہا جائے گا۔ اب احتساب عدالت میں حسن نواز اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دینے کا نوٹس آویزاں کردیا گیا ہے۔ دونوں ملزمان کے عدالت میں بذریعہ اشتہار طلبی کے احکامات پر عمل درآمد شروع کرتے ہوئے عدالتی حکم پر اشتہار احتساب عدالت کے نوٹس بورڈ پر چسپاں کیا گیا ہے۔ نواز شریف دو مرتبہ 26 ستمبر اور 2 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوچکے ہیں۔ سابق وزیراعظم کے صاحبزادے حسن نواز نے بتایا نواز شریف کا پاکستان جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ بیگم کلثوم نواز کی کیموتھراپی جاری ہے جنکی عیادت کیلئے وہ لندن میں موجود ہیں۔
اسلام آباد ( وقائع نگار)اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد اور رکن قومی اسمبلی کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے نیب ریفرنس کے سلسلے میں احتساب عدالت کی جانب سے فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کرنے کے حکم نامے کے خلاف دائر کی گئی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی ہے۔ کیپٹن (ر) صفدر نے اپنے وکیل امجد پرویز کے توسط سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی تھی کہ احتساب عدالت کو 13 اکتوبر کو فرد جرم عائد کرنے سے روکا جائے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ قانون کے مطابق فرد جرم کے لیے 7 دن کا وقت دیا جاتا ہے جبکہ احتساب عدالت نے صرف 4 دن بعد فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کی لہٰذا احتساب عدالت کے حکم نامے کو معطل کیا جائے کیونکہ 7 دن سے پہلے فرد جرم عائد کرنا آرٹیکل 265 سی کی خلاف ورزی ہے۔ کیپٹن صفدر نے درخواست میں وفاق، نیب اور احتساب عدالت کے جج کو فریق بنایا تھا۔عدالتی کاروائی شروع ہوئی تو جسٹس اطہر من اللہ نے کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کا ایسا کوئی فیصلہ (ججمنٹ) موجود ہے کہ 7 دن سے پہلے فرد جرم عائد نہیں ہو سکتی؟ کیپٹن صفدر کے وکیل نے جواب دیا کہ 'میرے پاس سپریم کورٹ کی ایسی کوئی ججمنٹ نہیں ہے' جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ 'کیپٹن صفدر احتساب عدالت کو بتائیں کہ انہوں نے فائل نہیں پڑھی لہٰذا انہیں وقت دیا جائے'۔ بعدازاں عدالت نے کیپٹن (ر) صفدر کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ احتساب عدالت اپنی کارروائی جاری رکھے۔