فاٹا بل قومی اسمبلی میں پیش نہ ہونے پر اپوزیشن کاہنگامہ سپیکر روسٹرم کے سامنے دھرنا
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں گزشتہ روز فاٹا اصلاحات بل کو پہلے ایوان کے ایجنڈے میں شامل کرنے اور بعدازاں اسے نکالنے کے معاملہ پر اپوزیشن نے شدید ہنگامہ آرائی کی۔ فاٹا ارکان‘ تحریک انصاف‘ پی پی پی اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کیا۔ نعرہ بازی کی اور تحریک انصاف کے ارکان نے سپیکر روسٹرم کے سامنے جا کر دھرنا بھی دیا۔ ایوان میں ’’بل کو کیوں نکالا‘‘ ایف سی آر قانون مردہ باد کے نعرے لگائے‘ ایجنڈا کی کاپیاں پھاڑ کر فضا میں اچھالی گئیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے تمام ارکان بعدازاں نعرہ بازی کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اعلان کیا کہ آج واک آؤٹ کر رہے ہیں اور جب تک بل ایوان میں نہیں لایا جاتا‘ واک آؤٹ جاری رہے گا۔ حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ پہلے بل پر ابھی مزید سوچ بچار کی ضرورت ہے‘ دو تین روز میں دوبارہ ایوان میں لایا جائے گا۔ اپوزیشن کے واک آؤٹ کرنے کے بعد اپوزیشن ہی کے رکن امجد نیازی نے کورم کی کمی کی نشاندہی کر دی۔ ڈپٹی سپیکر نے گنتی کرائی اور کورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس منگل کی صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کیلئے گزشتہ روز جو اجلاس کا ایجنڈا ارکان کو دیا گیا تھا‘ اس میں فاٹا اصلاحات اور فاٹا علاقوں کا کے پی کے میں انضمام کا بل بھی شامل تھا اور ایجنڈا کا آئٹم نمبر 16 تھا‘ تاہم گزشتہ روز جب ایوان کا اجلاس شروع ہوا تو جو ایجنڈا سامنے لایا گیا۔ اس میں سے یہ بل نکال دیا گیا تھا۔ وقفہ سوالات کے بعد جب ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کی صدارت میں اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو فاٹا ارکان میں سے شہاب الدین کھڑے ہو گئے اور مائیک کے بغیر بولنا شروع کر دیا اور کہا کہ وہ ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دیں گے۔ حاجی شاہ گل آفریدی بھی ان کی حمایت میں بولنے لگے اور کہا کہ ہم پاکستانی ہیں‘ ہمیں غدار نہ بناؤ دیگر فاٹا ارکان کی اپنی نشستوں پر کھڑے ہونے کے بعد تحریک انصاف کے ارکان نے نشستوں پر کھڑے ہو کر شور مچانا شروع کر دیا۔ شہاب الدین نے اپنی نشست پر کھڑے کھڑے ایوان کے ایجنڈا کی کاپی پھاڑ ڈی۔ پی پی پی اور دیگر اپوزیشن ارکان بھی کھڑے ہو گئے اور احتجاج شروع کر دیا۔ حاجی شاہ گل آفریدی نے کہا کہ تھانے داری قبول نہیں۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ حاجی گل آفریدی ایسی بات نہ کریں۔ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب کو وضاحت کے لئے کہا جس پر شیخ آفتاب نے کہا کہ بل کے بارے میں ابھی سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ دو تین دن میں دوبارہ لائیں گے۔ وفاقی وزیر کی وضاحت کو اپوزیشن کے ارکان نے قبول نہیں کیا اور ہنگامہ آرائی مزید تیز ہو گئی۔ ارکان نے ایجنڈا کی کاپیاں پھاڑنا شروع کر دیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ جتنے جذبات دیکھ رہے ہیں‘ یہ قدرتی بات ہے۔ جب سے موجودہ حکومت آئی ہے فاٹا کا ایشو اٹھا ہے۔ حکومت نے کوشش کی فاٹا بل منظور کیا جائے گا۔ اس پر کمیٹیاں بھی بنی ہیں۔ ایک مرتبہ بل بھی آیا تھا۔ میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ فاٹا کے دوستوں کو غلط فہمی نہیں ہونا چاہئے کہ یہ بل پاس ہو گا۔ پی پی پی اس کی حمایت کرتی ہے۔ آج مذاق کیا گیا ہے اچانک ایجنڈا میں آیا اور پھر نکال دیا گیا۔ اس سے بڑھ کر پارلیمنٹ سے اور مذاق کیا ہو سکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں حکومت کسی ایشو کو سنجیدہ طور پر نہیں لاتی۔ حکومت چاہتی ہے دن گزر جائے۔ یہ زیادتی ہے۔ فاٹا کا پاکستان کا حصہ بننا بہت اہم ہے۔ آج جذبات کو ٹھیس لگی ہے۔ ایجنڈا سے نکل جانا درست نہیں ہے۔ اس بل کو کیوں نکالا۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ پارلیمانی امور کے وزیر نے وضاحت کر دی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ تکنیکی وجوہات کے باعث روکا ہے‘ تین دن کے بعد لایا جائے گا۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ اگر غلطی ہوئی ہے تو کیوں ہوئی۔ اس پر ایکشن لینا چاہئے۔ وزیر سیفران کے ہوتے ہوئے شیخ آفتاب کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ وزیر سیفران نے تو خود اپوزیشن سے رابطہ قائم کیا تھا۔ عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ وزیر پارلیمانی امور کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایجنڈا کو لائیں۔ سوچنے کی ضرورت ہے اس کے بعد لائیں گے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نظرثانی کی وجہ ہونی چاہئے۔ ایک رات قبل ساری پارلیمنٹ یہ ایجنڈا لاتے ہیں۔ بل پہلے ایجنڈا پر تھا‘ اب نہیں ہے۔ فاٹا کے ممبران بار بار اس کا ذکر کر چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی کابینہ نے 2 مارچ کو فاٹا اصلاحات کو منظور کیا۔ سیکرٹری سیفران نے سمری وزیراعظم کو بھیجی۔ وزیراعظم نے صدر کو درخواست کی۔ سیاسی جماعتیں ایف سی آر کو ختم کرنے پر متفق ہیں۔ حکومت سیاسی صورتحال پیدا کر رہی ہے۔ جب سب نے اتفاق کر لیا ہے تو رکاوٹ کیا ہے؟ ایک دو شخصیات کی بنیاد پر پورے ملک کا ماحول خراب کرنا چاہ رہے ہیں۔ لوگوں کو کہا جاتا ہے سڑکوں پر نہ جاؤ اور ایوان میں آؤ‘ لیکن اب لوگوں کو راستہ دکھایا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر تکنیکی وجوہات بتائیں جس کی وجہ سے بل روکا گیا ہے۔ سید خورشید شاہ نے کہاکہ اگر تکنیکی بات ہے تو وزیر بتائیں۔ بدنیتی نظر آ رہی ہے پارلیمنٹ کی وقعت خود حکومت ختم کر رہی ہے۔ جب تک بل نہیں لائیں گے۔ ہم واک آؤٹ کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ وفاقی وزیر سیفران نے کہا بل لانا وزارت پارلیمانی امور کا اختیار ہے۔ اپوزیشن ارکان حکومتی وضاحتوں سے مطمئن نہیں ہوئے اور نعرہ بازی‘ ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے۔ قومی اسمبلی میں فاٹا اصلاحات بل پیش نہ ہونے پر فاٹا ارکان پارلیمنٹ نے کارکنوں کے ہمراہ پارلیمنٹ ہائوس کے باہر شدیداحتجاج کیااور مولانا فضل الرحمن ، محمود خان اچکزئی اور عبدالقادر بلوچ مردہ باد کے شدید نعرے لگائے جبکہ شاہ جی گل آفریدی اور شہاب الدین نے پارلیمنٹ ہائوس کے مرکزی داخلی دروازے پر کھڑے ہوکر راستہ بندکردیا۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے کارکنوں اور فاٹا ارکان پارلیمنٹ کے کارکنوں کے درمیان شدید تلخ کلامی بھی ہوئی۔ بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ آج ہمارے لئے خوشی کا دن تھا مگر افسوس کہ راتوں رات ہمارے اوپر ڈرون سے بھی بڑا حملہ ہوا۔ یہ حملہ صرف قبائلیوں پر نہیں بلکہ پاکستان پر ہوا ہے۔ پارلیمنٹ اس لئے ہے کہ یہاں عوام کو حق دیاجائے مگر اس طرح کی پارلیمنٹ عوام کو ضرورت نہیں جہاں ملک توڑنے کی سازش ہورہی ہو۔ یہ ملک توڑنے کی سازش ہے۔ اس موقع پر گفتگو کر تے ہوئے مسلم (ن) کے رکن قومی اسمبلی شہاب الدین نے کہا کہ رات کو فاٹا اصلاحات کا بل ایجنڈے میں تھا‘ لیکن آج غائب ہے۔ قبائل کو بغاوت اور الگ ریاست بنانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں‘ ہمیں غدار نہ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم وہی حقوق چاہتے ہیں جو دوسروں کے ہیں۔ اگر حکومت کی کوئی مجبوری تھی تو پہلے اتحادیوں سے بات کر لیتے۔یہ قبائلیوں کے ساتھ ظلم ہے۔علاوہ ازیں سینٹ اجلاس کا منگل کے روز کا ایجنڈا جاری کر دیا گیا۔ سینٹ میں آئینی ترمیمی بل پر پیپلز پارٹی اور حکومت کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ قومی اسمبلی کی نشستوں سے متعلق آئینی ترمیم ایجنڈ ے میں شامل نہیں۔ جبکہ سینٹ کی ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس بھی بے نتیجہ ختم ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی زیرصدارت سینٹ کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس میں پیپلز پارٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ مردم شماری آڈٹ کے لئے بین الاقوامی فرم کی خدمات حاصل کی جائیں جبکہ سینیٹر تاج حیدر نے سول اٹھایا ہے کہ پیپلز پارٹی کس طرح غلط اعداد و شمار پر اتفاق کرے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستوں سے متعلق آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لئے معاملہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے مذاکرات سے ہی حل ہو پائے گا۔ حلقہ بندیوں سے متعلق بل کے متن کے مطابق بل میں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیوں کا کام شروع کرے گا، جس کے تحت پنجاب میں قومی اسمبلی کی 9 نشستیں کم ہوں گی جبکہ خیبرپختونخوا میں 5، بلوچستان میں 3 اور اسلام آباد میں ایک نشست کا اضافہ ہوگا۔ خیال رہے کہ قومی اسمبلی پہلے ہی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیمی بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرچکی ہے جبکہ سینٹ سے منظوری کے لئے بل کم از کم چار بار پیش کیا گیا لیکن اس پر ووٹنگ نہ ہوسکی۔
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے سے فاٹا اصلاحات کا بل جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمنٰ کے دباؤ پر خارج کیا گیا ہے۔ بل ایک روز قبل قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل تھا اور اس میں 15 ویں نمبر پر شامل تھا۔ لیکن پیر کو اچانک قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے میں تبدیلی کر دی گئی جس کی وجہ سے اپوزیشن ارکان نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کر دیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جمعہ 15 دسمبر کو پارلیمانی جماعتوں کو ناشتہ پر مدعو کر لیا ہے جس میں فاٹا اصلاحات بل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم اپوزیشن آج دوبارہ احتجاج کرے گی۔ ذرائع کے مطابق پیر کو سینیٹ کی ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں طے پایا ہے کہ سینیٹ میں قائد ایوان راجہ محمد ظفر الحق قومی اسمبلی کے حلقوں کی ازسرنو حد بندی کے بارے میں آئینی ترمیم منظور کرانے کیلئے آج دوبارہ پیپلز پارٹی کی قیادت سے مذاکرات کریں گے جب تک پیپلز پارٹی کی قیادت آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دے گی اس وقت تک اسے سینیٹ کے ایجنڈے پر شامل نہیں کیا جائے گا۔ پیر کو سینیٹ میں 78 ارکان موجود ہونے کے باوجود آئینی ترمیم نہیں لائی گئی کیونکہ اس بات کا خدشہ تھا کہ پیپلز پارٹی بل کی مخالفت نہ کر دے۔