سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ صرف کرپشن کرپشن کرنے سے کرپشن ثابت نہیں ہوتی،نیب انکم ٹیکس کیس نہیں اٹھاسکتی مجرمانہ عمل دکھانا ہوگا، ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیں،پھر بھی ریفرنس بحال نہیں ہوگا، اگر پانامہ کیس نہ ہوگا تو کیا نیب نے کچھ نہیں کرنا تھا؟ پانامہ فیصلے کے آپریٹو حصہ پڑھیں، پانامہ فیصلے حدیبیہ کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، آپ اقلیتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں، اقلیتی رائے ہم پر لازم نہیں ، اس کیس میں نئے قوائد بنائے گئے ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے ریفرنس بحالی پر حکم امتناع جاری نہیں کیا تھا، نیب نے اپنے روئیے سے ریفرنس ختم کروایا، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پہلے حدیبیہ کیس دوبارہ کھولنے پر دلائل دیں پھر میرٹ پر ،کیا حکومت کل کسی دورے ملزم کو بھی معاہدہ کرکے باہر جانے کی اجازت دے دے گی؟ ملزمان کو واپسی پر گرفتار کیوں نہیں کیا گیا، عدالت نے نیب سے جعلی اکاﺅنٹس کے حوالے سے تفصیلات طلب کرلی۔ سپریم کورٹ میں ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف حدیبیہ ریفرنس پر جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی،ڈپٹی چیئرمین نیب امتیاز تاجور بھی عدالت میں پیش ہوئے، نیب کے پراسیکوٹر عمران الحق نے اپنے دلائل دیے۔ عدالت نے سوال کیا کہ اپیل دائر کرنے میںاتنی تاخیر کیوں کی گئی؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ جلاوطنی کی کیا کوئی قانونی حیثیت ہے؟مفرور کا تو سنا تھا جلاوطنی کا حکم کیا ہے؟نوازشریف کی جلاوطنی کا حکم کس نے دیا؟ عمران الحق نے جواب دیا کہ معاہدے کے تحت نوازشریف کو ملک سے باہر بھیجا گیا، نوازشریف خود اپنی مرضی سے باہر گئے تھے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ خود باہر گئے تھے تو مفرور کی کارروائی ہونی چاہیے تھی،اس کیس میں نئے قواعد بنائے گئے، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کل کو کیا حکومت کسی دوسرے ملز م کو بھی معاہدہ کرکے ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دے گی؟ جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ کیا نیب نے جلاوطنی کے سہولت کاری پر کوئی کاروائی کی؟ عمران الحق نے بتایا کہ نوازشریف پر طیارہ ہائی جیک کرنے کا کیس کراچی میں چل رہا تھا، جسٹس مشیر عالم نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کراچی میں زیر حراست تھے؟عمران الحق نے بتایا کہ ملزم اٹک قلعہ میں تھا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ اٹک قلعہ کے اندر کیس کس نے چلایا، کیا اٹک قلعہ کے اندر بھی کوئی عدالت ہے؟ اس وقت پاکستان کو کون سی حکومت چلارہی تھی؟عمران الحق نے جواب دیا کہ اس وقت چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف تھے نوازشریف سپریم کورٹ کے حکم کے بعد واپس آئے ، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اگر نوازشریف خود گئے تھے،توواپسی کے لیے درخواست نہ دینی پڑتی،جسٹس مشیر عالم نے سوال کیا کہ ملزمان کی واپسی پر انھیں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟عمران الحق نے بتایا کہ کیس چلنے کے بعد عدالت ہی گرفتار کا حکم دے سکتی ہے، 17جولائی 2011کو چیئرمین نیب نے کیس بحالی کی درخواست دی،17اکتوبر 2011کو ملزمان نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی، 18اکتوبر 2011کو عدالت نے حکم امتناع جاری کردیا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ریفرنس بحالی پر کوئی حکم امتناع نہیں دیا، نیب نے اپنے رویے سے ریفرنس ختم کروایا، ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دے دیں پھر بھی ریفرنس بحال نہیں ہوگا، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پہلے کیس دوبارہ کھولنے پر دلائل دیں پھر میرٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ اگر پانامہ نہ ہوتا تو کیا نیب نے کچھ نہیں کرنا تھا؟پانامہ فیصلے کا آپریٹو حصہ پڑھیں، پانامہ فیصلے میں حدیبیہ کیس کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ، فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جب نیب اپیل دائر کرے گی تب دیکھا جائے گا، اگر سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے تو پھر ہم سماعت کیوں کررہے ہیں، آپ اقلیتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں، اقلیتی رائے ہم پر لازم نہیں ہے،ہم آپ سے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اقلیتی فیصلے کو نہ پڑھیں، اتنا وقت ضائع کیا گیا آخر میں پھر وہی بات آگئی ،اگر آپ نے پانامہ فیصلے کا اب حوالہ دیا تو آپ کو نوٹس جاری کریں گے، جسٹس مظہر عالم نے سوال کیا کہ نیب کی عبوری ریفرنس دائر کرنے کی وجوہات کیا تھیں، پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے بتایا کہ حدیبیہ تحقیقات میں آنے والی درخواست پر کسی کے دستخط نہیں تھے، شکایات ذرائع سے موصول ہوئیں، جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ دیکھنا ہے کہ ریفرنس میں مجرمانہ عمل کیا ہے، ہمارا رخ افسردہ تاریخ کی طرف نہ موڑیں ، نہیں جاننا چاہتے کہ صدر کون تھا، چیئرمین کون تھا، کرپشن لفظ نہیں شواہد دکھائیں ، جعلی اکاﺅنٹس کیسے کھولے گئے؟کیا بینک ان کا تھا؟صرف کرپشن کرپشن کہنے سے کرپشن ثابت نہیں ہوتی،نیب انکم ٹیکس کیس نہیں اٹھا سکتی، مجرمانہ عمل دکھانا ہوگا، عدالت نے کیس کے حقائق سے متعلق لائیوشوز اور تبصروں پر پابندی لگا دی جب کہ سماعت آج منگل تک ملتوی کر دی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024