امریکہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے، مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت کیساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے: پاکستان
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں صرف افغانستان اور پاکستان ہی نہیں بھارت بھی واقع ہے اور اس میں سب سے بڑا مسئلہ جموں و کشمیر کا ہے جس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا ہے جب تک مسئلہ حل نہیں ہوتا ہم بالکل آگے نہیں بڑھ سکتے۔ افغانستان اور امریکہ کے سلسلہ میں افغان مہاجرین ہمارے لئے نمبر ون مسئلہ ہے، ان کی واپسی ہونی چاہئے۔ ہم نے اور وزیراعظم نے امریکی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلہ پر نظرثانی کریں۔ اس معاملہ پر 13 دسمبر کو او آئی سی کا سربراہی اجلاس استنبول میں ہو گا۔ او آئی سی اجلاس میں مسلم امہ اتفاق رائے سے تمام اقدامات اٹھائے گی اور پاکستان اس کا اہم حصہ ہو گا اور مسلم امہ کے جو فیصلے ہوں گے۔ ان پر عمل بھی کرے گا اور ان کی حمایت بھی کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر فیصل نے سرکاری ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں کیا۔ ان کا کہنا تھا امریکی وزیر دفاع کا حالیہ دورہ امریکی عہدیداروں کے طویل دوروں کی فہرست کا اختتامی دورہ تھا۔ ان کے امریکی صدر کی 21 اگست کو جنوبی ایشیا کی پالیسی پر نظرثانی کے بعد تواتر سے ملاقاتیں ہوئیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی امریکی نائب صدر مائیک بینس کو اقوام متحدہ کے اجلاس کی سائیڈ لائنز پر نیویارک میں ملے۔ اس کے بعد ہمارے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف امریکہ تشریف لے گئے، اس کے علاوہ اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ اس کے بعد ٹلرسن اور اب جیمز میٹس پاکستان آئے ہیں۔ انہوں نے سب سے اہم بات کی کہ ہم کامن گرا¶نڈز تلاش کر رہے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان یہ ملاقاتیں اس کامن گرا¶نڈ کو تلاش کرنے کی کاوش ہیں جس پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان اتفاق ہو سکے اور آگے چلا جا سکے۔ ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا افغانستان اور امریکہ کے سلسلہ میں افغان مہاجرین ہمارے لئے نمبر ون مسئلہ ہے۔ ان کی واپسی ہونی چاہئے۔ بڑے سالوں سے وہ یہاں ہیں اور باعزت طریقہ سے انہیں واپس اپنے ملک جانا چاہئے۔ اس کے علاوہ پاکستان پاک افغان بارڈر پر اپنی طرف باڑ لگا رہا ہے جبکہ افغانستان کی طرف جنوب کی طرف 600 کلومیٹر کے علاقہ میں نہ ان کی کوئی چوکی ہے نہ کوئی باڑ ہے وہ اس طرف کو کور کریں تاکہ دراندازی روکی جا سکے۔ 43 فیصد افغان علاقہ حکومت کے کنٹرول میں نہیں۔ وہاں محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ زرعی یونیورسٹی پشاور کے ریسرچ سینٹر میں جو حملہ ہوا یہ حملہ آور آخری وقت افغانستان میں رابطہ میں تھے۔ یہ بیان ڈی جی آئی ایس پی آر نے دیا ہے۔ یہ ساری چیزیں رکنی چاہئیں۔ یہ چیزیں بہت اہم ہیں جب تک یہ چیزیں نہیں ہوتیں تو کس طرح امن ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا کے حوالے سے امریکی پالیسی پر نظرثانی کے حوالے سے ہمارے خیالات یہ ہیں کہ جنوبی ایشیا صرف پاکستان اور افغانستان نہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھارت بھی ہے اور اس میں سب سے بڑا مسئلہ جموں و کشمیر کا ہے جس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا ہے۔ جب تک وہ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ہم بالکل آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ان کا کہنا تھا ڈونلڈ ٹرمپ کے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرنے سے قبل وزیراعظم ہا¶س سے بڑا طویل اور واضح بیان آیا کہ ہم اس کے خلاف ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہے۔ خاص طور پر 1980ءکی قرارداد نمبر 478 کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا جب تک مسئلہ فلسطین کا حل نہیں ہوتا اس طرح کی بات نہ کی جائے۔ ہماری بڑی پریشانی یہ تھی کہ یہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لئے بہت خطرناک ہو گا اور مشرق وسطیٰ میں حالات خراب کرے گا۔ خبریں آ رہی ہیں کہ دو فلسطینیوں کی شہادتیں ہو گئی ہیں۔ ساری دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے ہم نے اور وزیراعظم نے امریکی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس فیصلہ پر نظرثانی کر لیں۔ ان کا کہنا تھا او آئی سی کی سمٹ 13 دسمبر کو استنبول میں ہو رہی ہے۔ 12 دسمبر کو کونسل آف فارن فیئرز کی میٹنگ ہو رہی ہے۔ وزیر خارجہ جائیں گے اور سمٹ میں وزیراعظم جا رہے ہیں۔ او آئی سی اجلاس میں مسلم امہ اتفاق رائے سے تمام اقدامات اٹھائے گی۔ پاکستان اس کا اہم حصہ ہو گا اور مسلم امہ کے جو فیصلے ہوں گے ان پر عمل بھی کرے گا اور ان کی حمایت بھی کرے گا۔