خارجہ امور میں کامیابیاں ملیں‘ بھارت کے ساتھ دیرینہ مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرینگے : دفتر خارجہ
لاہور (اشرف ممتاز/نیشن رپورٹ) رواں سال پاکستان بھارت کے ساتھ نہ صرف باہمی اعتماد سازی میں اضافہ بلکہ جموں و کشمیر، سیاچن اور سرکریک جیسے دیرینہ مسائل کے حل پر بھی توجہ مرکوز کرنے کیلئے اسے بامعنی اور جامع مذاکرات کی طرف لانے کا بھی خواہاں ہے، دفتر خارجہ کی جانب سے جاری دستاویز کے مطابق بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری پر امن کو یقینی بنانے کیلئے 2003 کے سیز فائر معاہدے پر عملدرآمد ترجیحات میں شامل ہوگا، مشرق وسطی کے حوالے سے پاکستان، سعودی عرب، ایران اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اپنی اصولوں پر مبنی معتدل پالیسی جاری رکھے گا، دستاویز میں کہا گیا پاکستان سعودی عرب کو قریبی دوست سمجھتا ہے اور اس کی علاقائی سالمیت کو درپیش کسی بھی خطرے کے خلاف کوششوں کی حمایت جاری رکھی جائے گی، دستاویز میں 2015ءمیں پاکستان کی پالیسی اور حاصل ہونے والی کامیابیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، دستاویز میں کہا گیا کہ علاقائی تنازعات میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ بات اہم ہے کہ عدم مداخلت کی پالیسی اپنا کر اپنی سکیورٹی کو ترجیح دی جائے، گزشتہ سال ایسی پالیسی کو اپنایا گیا، شام کے معاملے پر اس کی خود مختاری کو تسلیم کیا گیا اور مسئلے کے پرامن حل پر زور دیا گیا، یمن کے معاملے پر سعودی عرب کی علاقائی سالمیت اور اس کے سیاسی مقاصد کی بھرپور حمایت کی گئی اور یمن میں مسئلے کے سیاسی حل کی بات کی گئی یوکرائن کے معاملے پر بھی ایسی ہی پالیسی اپنائی گئی ، گزشتہ سال ہماری خارجہ پالیسی کے حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بڑی کامیابیاں ملیں، انسداد دہشت گردی میں پاکستان کی کامیابیوں کو دنیا بھر میں مقبولیت مل رہی ہے، ہمسایوں کے ساتھ پاکستان کے معاملات کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے، مجموعی طور پر ہماری سفارتکاری کی مثبت تعریف مختلف ترجیحات کے حوالے سے کوششوں کا ثمر ہے، پاکستانی خارجہ پالیسی میں ہمسایوں کے ساتھ پرامن رہنا شامل ہے تاکہ معاشی بحالی اور توانائی کے بحران پر توجہ مرکوز کی جا سکے ہماری اپنی سکیورٹی کی بنیاد عدم مداخلت کی پالیسی ہے امداد نہیں، تجارت اور سرمایہ کاری، ملک کی جغرافیائی اہمیت سے فواد کے حصول ، انسداد دہشت گردی میں عالمی برادری سے تعاون اور بیرون ملک پاکستانیوں کی دیکھ بھال پاکستانی خارجہ پالیسی کے اہم نکات ہیں، دستاویز میں بھارت کے حوالے سے کہا گیا کہ گزشتہ برس ہم نے بھارتی قیادت میں رابطے جاری رکھے، آخرکار دونوں ملکوں نے اب مذاکرات کی بحالی اور ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنا اور باہمی تعاون بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، اس سب کے ساتھ پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے اپنا اصولی موقف برقرار رکھا اور اسے موثر انداز میں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں پیش کیا، گزشتہ برس افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے بھی بھرپور کوششیں کی گئیں، پاکستان نے افغان مفاہمت کیلئے حقیقی کوششیں کیں، انہی کوششوں کے نتیجے میں 9 دسمبر کو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں 4ملکوں کی جانب سے امن عمل کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا، چین کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم رہے اور چینی صدر نے اپریل2015ءمیں پاکستان کا دورہ کیا، جس کے بعد اقتصادی راہداری کا تاریخی اقدام سامنے آیا، ایران کے ساتھ بہتر ہمسائے کے تعلقات کی پالیسی اپنائی گئی ، عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد ایران کے ساتھ تعلقات مزید بہتر ہونگے۔