’’جمہوریت بچانے کیلئے حکومت کیساتھ کھڑے ہیں‘‘، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سیاسی رہنمائوں کی تقریریں حکمرانوں کو بھی رویہ بدلنے کا مشورہ
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ خبرنگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ بی بی سی) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں نے تقاریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم جمہوریت کو بچانے کیلئے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے حکومت کو بھی اپنا رویہ تبدیل کرنے کا مشورہ دیا۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ احتجاج، دھرنا اور نہ سیاسی اجتماع ہے بلکہ پاکستان کیخلاف بغاوت ہے، تباہی کا ایجنڈا لیکر آنیوالوں کو کھلی چھٹی نہیں دی جاسکتی، یہ انقلابی نہیں گھس بیٹھیے اور دہشت گرد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، نازک دور اس لیے کہ ایک گروہ آزادی رائے کا سہارا لے کر ریاستی اثاثوں پر لشکر کشی کرے۔ تاریخی اس لیے ہے کہ آج پارلیمنٹ متحد ہے، یہ ایوان ملک کے 18 کروڑ عوام کی آواز ہے، کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ قوم اپنے منتخب ایوان کے ساتھ ہے۔ یہ وقت بخیر و خوبی چلا جائے گا، وزیر داخلہ نے کہاکہ عمران نے پہلے ہماری حمایت کی، کیا وجہ ہے اب 360 ڈگری کا یوٹرن لے گئے، اس ٹرن کا ایک پس منظر ہے۔ انہوں نے کہا یہ دھرنا ہمارے ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کہا کہ ا ن کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اپوزیشن نے کہا اگر پی ٹی آئی کے راستے روکے گئے ہم یہ برداشت نہیں کرینگے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان سیاستدان بنے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے کہ ملک کی بساط لپیٹنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم ایک طرف اور لشکر دوسری طرف ہے۔ دھرنے والے کہتے ہیں کہ ملک کی تاریخ بدلنے آئے ہیں جس پر ایوان میں طاہرالقادری اور عمران خان کے لیے شیم شیم کے نعرے لگے۔ وزیر داخلہ نے کہا کچھ لوگ مغربی جمہوریت کا حوالہ دے کر بیوقوف بناتے ہیں۔ میرے پاس انفارمیشن تھی کہ یہ لوگ ریاستی اداروں پر حملے کریں گے۔ سیاسی جماعتیں متفق تھیں کہ دھرنے والوں کو نہ روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے سیکرٹری داخلہ اور سرکاری حکام کو دھمکیاں دیں۔ عمران خان اور طاہر القادری پاکستان کیخلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ پاکستان کے قومی ٹی وی پر حملہ کرنے والے ملک کے خیرخواہ نہیں ہو سکتے۔ عمران خان نے بار بار یقین دہانیوں کے باوجود دھوکہ کیا، عمران خان اور طاہر القادری نے جھوٹ کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ مظاہرین نے پی ٹی وی پر حملے کے دوران خاتون براڈ کاسٹرز کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ اختیار کیا اور باقی جو حرکتیں کیں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ مظاہرین نے پی ٹی وی کی مسجد سے لائوڈ سپیکر اور چٹائیاں تک چوری کر لیں۔ مصطفوی انقلاب کا نعرہ لگانے والے ان جعلی انقلابیوں، گھس بیٹھیوں اور دہشتگردوں کا چہرہ بے نقاب ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے میں عسکری جماعت کے 150 تربیت یافتہ دہشتگرد موجود ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کا گھیرائو کرنے والے قادری اور عمران جمہوریت کے لئے نہیں بلکہ فوج کا نام استعمال کر کے جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ انقلاب اور آزادی کے نام پر پارلیمنٹ کو یرغمال بنارہے ہیں۔ یہ مسلح لوگ ہیں ان کے خلاف ایکشن ناگزیر ہو چکا۔ پارلیمنٹ میری اور حکومت کی رہنمائی کرے۔ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی بنا کر ان سے وضاحت لی جائے کہ انہوں نے فوج کی تذلیل کیوں کی۔ میرے پاس ایسے انکشافات ہیں جنہیں منظر عام پر لایا تو ملک میں طوفان برپا ہو جائیگا۔ مارچ میں وزیر اعظم کی عمران سے ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے جمہوریت کو مستحکم آئین و پارلیمنٹ کے تحفظ کے لئے وزیر اعظم کے ساتھ قسمیں کھائی تھیں۔ تین ماہ میں ایسے کیا محرکات ہوئے جو عمران بدل گئے۔ عمران اور قادری دونوں جمہوریت کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی قادری نے پارلیمنٹ کی تضحیک کی۔ ریاستی عمارتوں میں گھس کر ان کے کارکن توڑ پھوڑ کررہے ہیں اور دونوں رہنما کہتے ہیں یہ ہمارے کارکن نہیں ہیں۔ دھرنے والوں نے حملہ کر کے قادری زندہ باد کے نعرے لگائے۔ ہمارے پاس ثبوت ہیں۔ سپریم کورٹ میں پیش کریں گے۔ اگر پولیس نے کہیں پر زیادتی کی ہے تو وہاں ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ وزیرداخلہ نے کہا کہ ایوان اگر سمجھتا ہے کہ یہ بغاوت ہے تو موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکومت اور قوم کی رہنمائی کرے۔ وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ جاوید ہاشمی نے جو کہا ہے اس کے صحیح اور غلط ہونے کی میں کوئی گواہی نہیں دینا چاہتا۔ انہوں نے بتایا کہ میرے پاس ثبوت ہیں کہ ان لوگوں نے اپنے لوگوں کے ساتھ فوج کا نام استعمال کیا ہے۔ چودھری نثار نے تجویز دی کہ ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جس میں عمران خان اور جاوید ہاشمی کو بلایا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ آپ نے اپنی سیاست میں عدلیہ کو ملوث کرنے کی کوشش کیوں کی؟ مشترکہ اجلاس سے خطاب میں سینٹ میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن نے حکومت پر کڑی تنقید کی تاہم یہ بھی کہا کہ اپوزیشن موجودہ صورتحال میں حکومت کے ساتھ غیر مشروط طور پر کھڑی ہے۔ ’ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن مجبوراً کھڑے ہیں۔ ہمارے ساتھ آپ کا سلوک ظالمانہ رہا ہے۔ آپ کے ساتھ ہماری حمایت غیر مشروط ہے، لیکن امید ہے کہ انتشار کے بعد آپ اپنی کارکردگی پر غور و فکر کریں گے۔‘ چودھری اعتزاز احسن نے کہا کہ باہر جو لشکری کھڑے ہیں ان کے الزامات میں بڑی حد تک صداقت ہے۔ میں نے خود ایک حلقہ دیکھا ہے کہ جس میں بدترین دھاندلی ہوئی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ کنٹینر میں رہنے سے کوئی بھٹو نہیں بن سکتا۔ عمران خان اور طاہر القادری کے ساتھ لوگ مجبوراً کھڑے ہیں، عمران خان اور طاہر القادری کی یلغار کامیاب ہوگئی تو آئین کی دھجیاں اڑ جائینگی، امید کرتے ہیں کہ اس بحران سے نکل کر حکومت کا نیا طریقہ کار ہوگا ہم حکومت سے غیر مشروط حمایت کرتے ہیں۔ وزیراعظم کے ساتھ اپوزیشن، پارلیمنٹ اور ایوان کھڑا ہے، حکومت کو کچھ نہیں ہوگا مگر اس امتحان کے خاتمے کے بعد ہم بھرپور اپوزیشن ہونگے۔ حکومت اپنی کارکردگی پر بھی غور و فکر کرے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ صدقے جائوں عمران خان اور قادری کو جنہوں نے وزیراعظم اور حکومت کو پارلیمنٹ یاد کرا دی۔ جب ہم اس بحران سے نکل جائینگے حکومت کو بیٹھ کر سوچنا ہوگا کہ دو مرتبہ پہلے حکومت گئی ہے کیا وہی لوگ آج بھی آپ کے اردگرد نہیں ہیں وزراء کے رویئے تلخ ہوگئے ہیں کیا یہ شیریں نہیں ہوسکتے؟ میر ظفر اللہ جمالی نے کہا تھا کہ وہ استعفیٰ نہیں دینگے اور دو دن بعد استعفیٰ دیدیا اگر آپ استعفیٰ نہیں دینگے تو کوئی آپ کو مجبور نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ انقلاب میں شفافیت اور حقیقت ہوتی ہے ان کو میڈیا نے اٹھایا ہے جب کور کمانڈر میٹنگ سے متعلق سوال کیا گیا تو میرا جواب تھا کہ کور کمانڈر ہم سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں ان کو نظر نہیں آرہا کہ بیس اکیس روز سے قوم کو بلا رہے ہیں اور ان کی کتنی تعداد بڑھی ہے ان کی کال پر کسی نے کان نہیں دھرے۔ عمران خان اور طاہر القادری نے انقلاب اور آزادی کی رٹ لگائی ہے اور ان کے دائیں بائیں وہ لوگ کھڑے ہیں جن کیخلاف انقلاب آنا چاہیے انقلاب میں رکاوٹ نہیں ہوتی انقلاب جب آتے ہیں تو سڑکیں ویران ہوتی ہیں پورے ملک میں اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے نرم رویہ اختیار کیا ان کو روکنے اور تشدد کی مخالفت کی اگر یہ روایت بن جائے تو کل کیا مشکل ہے کہ زیادہ پرعزم لشکر آکر بیٹھ جائے اور کہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ شیعہ کو کافر کہے فوج کو وزیرستان سے نکالیں۔ احتجاج کرنے والے فوج کو بھی ملوث کررہے ہیں پھر کہنا کہ یہ لشکر پرامن طور پر وزیراعظم ہائوس کے سامنے بیٹھنے جارہا تھا کونسی دنیا میں ٹین ڈائوننگ سٹریٹ ہے جس کے باہر دو تین ہزار لٹھ بردار کیلوں والے ڈنڈے، کٹر سے لیس مسلح جتھے کو اجازت ہوگی کہ وہ دروازے تک آجائے اور قائد کہیں کہ ہم ڈیوڈ کیمرون کے گھر جا کر ان کی گردن مروڑ دونگا۔ عورتوںاور بچوں کو ڈھال بنایا گیا اور خود پیچھے تھے۔ پیپلز پارٹی میں محترمہ خود لیڈ کیا کرتی تھیں اور یہی لاٹھی کھانے کو تیار تھیں۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے 40، 45 ہزار سکیورٹی فورسز بشمول فوج اور نیم فوجی دستوں کے نہتے جوانوں کے ذریعے مظاہرین کو پارلیمنٹ ہائوس سے باہر نکالنے کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ سب ادارے آئین اور منتخب حکومت کا احترام کریں۔ پارلیمنٹ ہائوس سے مظاہرین کو نہ نکالا گیا تو ہم خود ان کو نکالیں گے۔ تربیت یافتہ جوانوں کے ہوتے یہ کیسے آ گئے ہیں کیا تنخواہیں اس لئے دی جاتی ہیں، 245 نافذ ہے۔ آئین، قانون، جمہوریت کی طرف بڑھنے والے ہاتھ کو روکیں گے ضروری ہوا تو اس کا مقابلہ کریں گے۔ سب پٹڑی پر چل پڑے ہیں۔ عدلیہ، میڈیا، سول سوسائٹی ہمارے ساتھ ہیں۔ فوج سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ آئین کا احترام کریں۔ منتخب حکومت کا احترام کریں۔ اگر خدانخواستہ کچھ گڑ بڑ ہوئی ہم بھی کچھ کریں گے۔ ایک طرف آئین قانون جمہوریت کی حامی قوتیں دوسری طرف ڈنڈا بردار قوتیں ہیں پارلیمنٹ پر قبضہ ہو چکا ہے، یہ بغاوت ہے۔ مظاہرین کا عجیب فلسفہ ہے کہ پولیس کو گولی مارو اور فوج زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ امریکہ، روس نے اپنی فضاء میں خود ہوائی جہاز گرائے۔ ہمارے پارلیمنٹ ہائوس پر حملے کی دہشت گرد کارروائی کروائی گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف جمہوریت کے کپتان اور سردار ہیں اگر ان سے کوئی بڑا مطالبہ کیا گیا تو اس پر بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تشدد اور دبائو سے اپنی بات منوانے کے خلاف ہیں، بحران کے حل کیلئے 25 نشستیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون سازش ہے تو حکومت بے نقاب کرے اگر غلطی ہے تو تسلیم کرے۔ انہوں نے کہا کہ اگر چند سو کا لشکر کراچی کی طرف بڑھا تو اس کو قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ خالد مقبول صدیقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم سول نافرمانی کا اعلان کرتے تو ہم پر آرٹیکل 6 لگا دیا جاتا لیکن دھرنا دینے والی جماعت کے سربراہ نے سول نافرمانی اور ہنڈی کے ذریعے پیسے لانے کے لئے عوام کو مشورہ دیا ان پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کیوں نہیں کیا جاتا۔ جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں گے اور نہ چھٹی پر جائیں گے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے ملک کیخلاف ہونے والی سازش کو پکڑ لیا۔ دھرنے میں مطالبہ کرنے والوں کی معقولیت سمجھ میں نہیں آ رہی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آج جمہوریت اور آئین سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کے 30 روز کے استعفے کا کیا مطلب ہے؟ دھاندلی کی بات کرنے والے کے پی کے حکومت کیوں نہیں چھوڑ رہے؟ ہر قدم پر وزیر اعظم کے ساتھ ہیں۔ 4 حلقوں کے نام پر پورا نظام لپیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آج جمہوریت اور آئین سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ پولیس اور فوج ایک ہی ملک کی ہے لیکن اختلافات پیدا کرنے کیلئے پولیس کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ فوج کیلئے زندہ باد کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ آج چین کا صدر پاکستان کی بجائے ہندوستان جانے پر غور کر رہا ہے جس سے ہمارے دشمنوں کے دل ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی سازش پکڑ لی گئی ہے اور ملکی سیاسی قیادت نظام لپیٹنے کی کوشش کو ناکام بنا دے گی، بات نواز شریف کی نہیں بلکہ منتخب وزیراعظم کی ہے۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم سے استعفی نہیں لیا جائے گا اور نہ ہی وہ چھٹی پر جائیں گے بلکہ وزیراعظم پارلیمنٹ کی نمائندگی کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں پاکستان کی تذلیل ہورہی ہے اور پوری دنیا نے دیکھا کہ سرکاری ٹی وی کی نشریات بند کردی گئی، آج کے بعد حکومت کی انتظامی ذمہ داری ہے کہ اسلام آباد کو جتھوں سے پاک کردیا جائے۔ اگر صوفی محمد پر بغاوت کا کیس بن سکتا ہے تو پارلیمنٹ پر حملہ کرنے پر بھی بغاوت کا مقدمہ درج ہونا چاہیئے۔ کسی نے نظام لپیٹنے یا مائنس ون کا فارمولا بنایا تو وہ ناکام ہوچکا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ نے اعلان کیا کہ قوم جمہوری حکومت کے خلاف کھڑی ہے تقاریر کے دوران تحریک انصاف اور عوامی تحریک پر زبردست تنقید کی گئی۔ چودھری نثار کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس فائرنگ کیلئے ہتھیار نہیں مگر ان تربیت یافتہ دہشت گردوں کے پاس پسٹل، کلہاڑیاں، ہتھوڑے، کٹر اور غلیلیں ہیں۔ ڈیڑھ ہزار کے قریب تربیت یافتہ دہشت گرد ہیں جو ایک عسکری گروپ سے آئے ہیں۔