پہلے نوازشریف کا احتساب: متحدہ اپوزیشن‘ وزیراعظم کے استعفے‘ ٹی او آرز پر اتفاق نہ ہو سکا
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) اپوزیشن کی 9 جماعتوں کے اجلاس میں پانامہ لیکس پر متفقہ ٹی او آر تیار نہ ہوسکے جس کے باعث اپوزیشن جماعتوں کی ٹی او آر کمیٹی کا اجلاس آج 11بجے ہوگا۔ اس اجلاس میں متفقہ ٹی او آرز کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی جائیگی۔ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں وزیراعظم محمد نواز شریف سے استعفیٰ کے مطالبہ پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مختصر اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پانامہ لیکس میں جن افراد کے نام آئے، ان کا احتساب ہونا چاہئے۔ پانامہ لیکس پر کمشن کے قیام کیلئے ضروری قانون سازی کی جائے۔ مشترکہ اعلان میں پانامہ لیکس پر حکومتی ٹی او آرز کو مسترد کر دیا گیا۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ احتساب کا آغاز وزیراعظم اور ان کے خاندان سے کیا جائے۔ کمشن کے قیام کے لئے اپوزیشن سے مشاورت سے قانون سازی کی جائے۔ حکومتی ٹی او آر کسی صورت قابل قبول نہیں۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن کی رہائش گاہ پر اپوزیشن کی 9 جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں عدالتی کمشن کے ٹی او آرز پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ وزیراعظم سے الزام ثابت ہونے تک استعفیٰ دینے کا مطالبہ مناسب نہیں۔ بعض اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے استعفیٰ کی مخالفت کی گئی۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف وزیراعظم کے استعفے پر اصرار کرتی رہیں۔ الزامات ثابت ہونے سے قبل اپوزیشن وزیراعظم کے استعفیٰ کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی اور انہیں پارلیمنٹ میں اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں یہ تجویز زیر غور آئی کہ صدر پارلیمنٹ کا 14 روز میں اجلاس طلب کریں جس میں وزیراعظم اپنے ملکی اور غیر ملکی اثاثوں کی تفصیلات پیش کریں۔ وزیراعظم 1985ء سے بیرون ملک فنڈز کی ترسیل اور انکم ٹیکس کی تفصیلات پیش کریں۔ پانامہ پیپرز انکوائری اینڈ ٹرائل ایکٹ اپوزیشن کی مشاورت سے تیار کیا جائے۔ اپوزیشن جماعتوں نے 1956ء کے قانون کے تحت تحقیقاتی کمشن بنانے کی مخالفت کی اور کہا کہ آرڈیننس کے ذریعے عدالتی کمشن قائم کیا جائے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں اس حد تک اتفاق رائے رہا کہ احتساب کا آغاز وزیراعظم اور ان کے خاندان سے ہونا چاہئے۔ تاہم یہ بھی طے پا گیا کہ سب کا احتساب ہونا چاہئے۔ اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ ٹی او آر تیار کرنے کیلئے کور کمیٹی قائم کی جس میں 9 جماعتوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔ کمیٹی میں اعتزاز احسن، حامد خان، خالد ، مشاہد حسین، شیخ رشید، سراج الحق، اسرار زہری، انیسہ زیب طاہرخیلی اور میاں افتخار شامل ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان تحقیقاتی کمشن کیلئے اپنا کام مکمل کرنے کے ٹائم فریم پربھی اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اوردیگر جماعتوں نے اپنے اپنے ٹی او آر اجلاس میں پیش کئے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ ،جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت حزب اختلاف میں اس معاملے پر بھی اختلاف تھا کہ تحقیقات کے لئے کتنا وقت دیا جائے۔ اجلاس میں عدالتی کمشن کے حکومتی ضابطہ کار اتفاق رائے سے مسترد کر دیئے گئے۔ عدالتی کمشن آرڈیننس سے بنانے اور اسے پارلیمانی تحفظ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ چودھری شجاعت کا کہنا تھا کہ ایجنڈے زیادہ نہ رکھیں، صرف ایک مطالبہ کریں، آفتاب شیرپائو نے تجویز پیش کی کہ حکومتی ٹی او آرز میں سے جو اچھے ہیں انہیں لے لیں۔ میر اسرار اللہ زہری کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے واحد اپوزیشن رکن ہوں، تعاون کروں گا۔ اعتزاز احسن کہنے لگے کہ وزیراعظم خود کو پہلے کلیئر کردیں۔ خورشید شاہ نے کہا کہ جو کرنا ہے آج ہی کر لیں، معاملہ نمٹا کر اٹھیں۔
اسلام آباد+ لاہور (نیٹ نیوز+ سپیشل رپورٹر) متحدہ اپوزیشن کے اجلاس کے بعد رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ پیپلزپارٹی کے قمرالزمان کائرہ نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم پانامہ پیپرز کے بعد اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے۔ اعتزاز احسن‘ شاہ محمود قریشی‘ شیخ رشید کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پانامہ پیپرز میں جن کے نام آئے سب کا احتساب ہونا چاہئے۔ قانون سازی کیلئے اپوزیشن سے مشاورت کی جائے۔ اپوزیشن نے ٹی او آر کیلئے مشترکہ کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔ حکومتی ٹی او آرز موجودہ شکل میں قابل قبول نہیں۔ کوشش ہے کہ آج ٹی او آرز حتمی فیصلہ کر لیں۔ احتساب کا آغاز وزیراعظم اور ان کے خاندان سے ہو۔ پانامہ انکشافات پر جوڈیشل کمشن تشکیل دیا جائے۔ اپوزیشن کی ٹی و آرز کمیٹی کا اجلاس آج دن 11 بجے ہو گا۔ قمرالزمان کائرہ وزیراعظم کے استعفے کا سوال گول کر گئے۔ میڈیا سے بات چیت میں اپوزیشن کے تمام رہنما اس سوال پر خاموش رہے۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ’’وزیراعظم اپنی اخلاقی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے‘‘ میڈیا کے لوگ جو چاہیں تشریح کرلیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی آج ملاقات کرے گی اور جلد ٹی او آرز فائنل کریگی۔ پیپلزپارٹی کے سعید غنی نے کہا ہے کہ کچھ جماعتوں نے کہا کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں‘ کچھ نے کہا کہ اس وقت نہیں ہونا چاہئے‘ اپوزیشن استعفے کے معاملے پر متفق نہیں ہو سکی۔ ساری جماعتوں کا وہی مئوقف ہے جو میڈیا پر دیا گیا ہے جو مئوقف سامنے آیا وہ سب جماعتوں کا ہے۔ پیپلزپارٹی کا مئوقف وہی ہے جو بلاول بھٹو کا ہے۔ میں خود اس پر بات نہیں کروں گا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس کا مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ وزیراعظم کو تین بار قوم سے خطاب کرنا پڑا۔ احتساب کے دو مرحلے ہونے چاہئیں‘ پہلے مرحلے میں وزیراعظم اور ان کے خاندان اور جن لوگوں کا پانامہ لیکس میں نام آیا ہے ان کا احتساب ہوا اور دوسرے مرحلے میں 1947ء سے اب تک جتنی کرپشن ہوئی ہے اس کا احتساب ہونا چاہئے۔ انہوں نے یہ تجاویز اپوزیشن جماعتوں کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں پیش کیں۔ سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی نے کرپشن کے خلاف اپنی مہم پہلے سے شروع کر رکھی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ صرف مالی کرپشن کا احتساب کافی نہیں‘ انتخابی کرپشن اور اخلاقی کرپشن کے بارے میں بھی سفارشات مرتب کرنی چاہئیں کیونکہ یہ کرپشن بھی بہت بڑا جرم ہے اور پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ جلسے جلوس اور احتجاج اپنی جگہ لیکن اس کے لئے اپوزیشن مشترکہ لائحہ عمل بھی ترتیب دے۔ یہ میٹنگ بہت اہم ہے اور اس کو نتیجہ خیز بنانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے بھی کئی کمشن بنے ہیں۔ حمود الرحمن کمشن‘ ایبٹ آباد کمشن وغیرہ لیکن ان میں سے کوئی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔