قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد میں اضافے کا بل مسترد کر دیا
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں سینٹرل لاء آفیسرز ترمیمی بل2016کو نام کی تبدیلی کے بعد پرائیویٹ پریکٹسنگ بل2016کا نام دیکر منظور کرلیا گیا،کام کے مقامات خواتین کو ہراساں کرنے کا ترمیمی بل2014قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بھیج دیا گیا، سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کا ترمیمی بل2016ء کمیٹی نے مسترد کردیا، صاحبزادہ طارق اللہ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے ضابطہ دیوانی میں مزید ترمیم کا بل حکومتی بل کے ساتھ اکٹھا کرنے کی ہدایت کردی، کمیٹی نے ارکان اسمبلی کی مراعات اور تنخواہوں میں کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروٹوکول 22 سکیل کا ہے مگر تنخواہ 22 سکیل کے افسر سے کم ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے سپیکر کی تنخواہ 5 لاکھ روپے ہے مگر قومی اسمبلی کے سپیکر کی تنخواہ ان کے سیکرٹری سے بھی کم ہے۔کمیٹی چیئرمین چوہدری بشیر محمود ورک نے عدلیہ کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جج ریماکس میں محض اخباری بیانات دیکر خوش ہوتے ہیں انہیں اپنا اصل کام کرنا چاہئے کام صحیح کریں گے توکیس جلد نمٹیں گے کہتے ہیں عدالت نہیں بولتی اس کے فیصلے بولتے ہیں تو عدالتوں کے فیصلے آنے چاہئیں ریمارکس نہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف نے سرکاری وکلاء کے پرائیویٹ پریکٹس کرنے پر پابندی لگانے کے ترمیمی بل کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی ہے ترمیم کے تحت اب وہ شخص جو کسی ہائی کورٹ میں پانچ سال پریکٹس کرنے کا تجربہ رکھتے ہو اسٹنٹ اٹارنی جنرل بننے کا اہل ہوگا اس سے پہلے سٹینڈنگ قونصل بننے کے لئے یہ شرط تھی کہ وہ ہائی کورٹ کے جج بننے کا اہل ہوگا۔وزیر مملکت برائے قانون وانصاف بیرسٹر ظفر اللہ نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل ایک آئینی عہدہ ہے اور آئین نے اٹارنی جنرل پر پابندی عائد کی ہے کہ وہ بطور وکیل پرائیویٹ پریکٹس نہیں کرسکتے کیونکہ اس سے مفادات کا ٹکرائو ہوتا ہے۔ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ ججوں کی تعداد میں اضافے سے متفق نہیں جبکہ حکومت نے بھی تعداد نہ بڑھانے کا اصولی فیصلہ کیا ہوا ہے۔ رکن قومی اسمبلی چوہدری محمد اشرف نے مقدمات کو جلد نمٹانے کے لئے اس کی حمایت کی تاہم تحریک انصاف کے عارف علوی اور علی محمد خان سمیت دیگر ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ علی محمد خان کا کہنا تھا کہ جب تک ضلع سطح پر عدلیہ میں اصلاحات متعارف نہیں کی جاتیں اور غیر ضرروی مقدمات کو ختم نہیں کیا جاتا سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ عارف علوی نے کہا کہ پاکستان ان ممالک میں ہے جہاں قوانین کو بہتات ہے، ہر مسئلے کے لئے قانون بنا ہے جبکہ قانون کے اطلاق کے لئے بھی قانون بنا ہے مزید قانون سازی کرنے کی قطعا ضرورت نہیں صرف موجود قوانین پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن ارکان کمیٹی نے اپوزیشن ممبران کے بلوں پر پیش رفت نہ ہونے پر احتجاج کیا اور کہا کہ جب بھی کوئی اپوزیشن ممبر کوئی ترمیم لیکر آتا ہے حکومت اپنی ترمیم بھی لے آتی ہے اور قانون سازی کا کریڈٹ چھین لیتی ہے۔