آپس کے اختلافات کئی خانوادوں کا مستقبل داو¿ پر لگ گیا
راو¿ شمیم اصغر
ملتان بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان ڈویژنوں میں جہاں کبھی بڑے سیاسی خانوادے سیاسی افق پر پارٹی ٹکٹ کے بھی محتاج نہیں ہوتے تھے، سیاسی شعور بہتر ہونے کی وجہ سے اب یہ خانوادے عوام میں مقبول سیاسی جماعتوں کی جانب پارٹی ٹکٹ کے لئے دیکھتے نظر آتے ہیں۔ ملتان میں کبھی ساری سیاست گیلانیوں اور قریشیوں کے گرد گھومتی تھی آج درجنوں نئے خانوادے میدان سیاست میں قدم جما چکے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں کبھی صرف لغاری مزاری ہی سیاست کے حق دار سمجھے جاتے تھے۔ راجن پور ضلع بنا تو مزاری ضلع راجن پور تک رہ گئے اور ڈیرہ غازی خان میں لغاریوں کا طوطی بولنے لگا۔ پھر ان دونوں اضلاع میں متعدد سیاسی خانوادے ان سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں آ گئے۔ کسی زمانے میں ڈیرہ غازی خان کی ساری سیاست تمنداروں کے گرد گھومتی تھی اب یہ تمن بھی آپس میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ لغاری خاندان آج کئی دھڑوں میں تقسیم ہے۔ سابق صدر پاکستان سردار فاروق احمد خاں لغاری کے صاحبزادے ہی آج ان کے سیاسی وارث نہیں۔ ان کے چچا سردار جعفر لغاری چچی مینا لغاری‘ دوسرے چچا سردار مقصود لغاری اور ان کے صاحبزادے سب ضلع ڈیرہ غازی خان کی سیاست میں متحرک ہیں ۔ اسی طرح کھوسہ تمن کے سردار ذوالفقار علی خاں کھوسہ سیاسی افق پر نمودار ہوئے تو انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور ضلع ڈیرہ غازی خان میں تمن لغاری کی ٹکر کا خاندان بن گیا۔ اب یہ خاندان بھی کئی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے اختلافات پر انتہائی قریبی رشتے دار دور ہو گئے ہےں۔ لغاریوں کی طرح سردار ذوالفقار علی خاں کھوسہ کا خاندان کچھ اس انداز میں بکھرا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں انہیں اپنی شناخت برقرار رکھنی مشکل نظر آتی ہے۔ سردار ذوالفقار کھوسہ کے ایک صاحبزادے سردار سیف کھوسہ کے والد کے ساتھ اختلافات اس حد تک جا چکے ہیں کہ حالیہ ضمنی الیکشن میں انہوں نے اپنے ہی بھائی سردار حسام الدین کھوسہ کی حمایت نہیں کی بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے مخالفت ہی کی تھی اور اب وہ ان ہی اختلافات کی بنیاد پر اپنے والد والی پارٹی مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر پاکستان پیپلز پارٹی سے پینگیں بڑھا چکے ہیں۔ چھوٹے موٹے سیاسی اختلافات تو پہلے ہی تھے لیکن حالیہ ضمنی الیکشن میں انہیں اپنے والد سے شکایت تھی کہ انہوں نے ان کے داماد کو الیکشن نہیں لڑایا۔ اسی طرح سردار امجد فاروق کھوسہ جو 2008ءکے الیکشن میں این اے 171 اور پی پی 242 آزاد پرامیدوار تھے۔ قومی نشست پر وہ مسلم لیگ (ق) کے امیدوار خواجہ شیراز محمود سے ہار گئے تھے۔ وہ حال ہی میں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے ہیں لیکن سردار ذوالفقار علی خاں کھوسہ ان کی جگہ میربادشاہ خان کو آئندہ انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ دینا چاہتے ہیں۔ سردار ذوالفقار علی خاں کھوسہ کے صاحبزادے سردار دوست محمد خاں کھوسہ جو چند ماہ وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہے اور چند ماہ قبل تک صوبائی وزیر تھے اب وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے اختلافات کے باعث وزارت چھوڑ کر گھر بیٹھے ہیں۔ سردار امجد فاروق کھوسہ اور سردار ذوالفقار علی خاں کھوسہ کے مابین اختلافات اس وقت پیدا ہوئے تھے جب 2004ءمیں تحصیل نظامت کیلئے رسہ کشی ہو رہی تھی۔ سردار امجد فاروق کھوسہ اپنے بیٹے عبدالقادر کھوسہ کو ضلعی نائب ناظم بنانا چاہتے تھے لیکن جوڑ توڑ میں آخرکار انہیں لغاری امیدوار کی حمایت کرنا پڑی۔یہی کیفیت لغاری خاندان کی بھی ہے۔ سردار فاروق احمد خاں لغاری کی زندگی میں ہی ان کے بڑے صاحبزادے سردار جمال خاں لغاری سینیٹر منتخب ہو گئے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی سردار اویس لغاری این اے 172 کے ضمنی الیکشن میں اس نشست پر کامیاب ہوئے تھے ، جہاں سردار فاروق لغاری کو پارٹی ٹکٹ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی بلکہ پارٹی کو ان کی ضرورت ہوتی تھی۔ ان کا اپنا خاندان اختلافات کا شکار ہوا اور سیاسی شعور میں اضافہ ہوا تو 2008ءکے الیکشن میں وہ ایک مذہبی شخصیت حافظ عبدالکریم سے بمشکل جیت سکے۔ جو مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سیکرٹری جنرل ہیں اور ان کی پارٹی مسلم لیگ (ن) کی حلیف ہے۔ وہ آئندہ انتخابات میں بھی یقیناً خطرے کا باعث بنیں گے۔ لغاری اور کھوسہ خاندانوں کے مابین پھوٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حافظ عبدالکریم اور عبدالعلیم شاہ جیسے سیاسی رہنما¶ں نے جنم لیا ہے۔ اب اطلاعات کے مطابق سردار جمال خان لغاری اور سردار اویس لغاری جو اپنی سیٹیں چھوڑے بغیر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ ان کی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اسی طرح علیک سلیک ہو چکی ہے جیسے ملتان میں ملک سکندر حیات بوسن کی ہے اگر یہ اطلاعات درست ثابت ہو جاتی ہیں تو ضلع ملتان کی طرح ضلع ڈیرہ غازی خان کی سیاست میں بھی ایک بھونچال آئے گا۔